2019

ایک نئی تحقیق کے مطابق ٹماٹروں میں پائی جانے والی غذاء لائیکوپین شاید مرد کے سپرم کی صلاحیت میں بہتری لاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق، صحت مند مرد جو ایک اضافی غذا کے طور پر دن میں ایک مرتبہ ٹماٹروں کے ست کے دو چمچے کھاتے ہیں، ان کے مادّہ تولید کی صلاحیت اور صحت پہلے سے زیادہ بہتر تھی۔ ست کی بجائے پکے ہوئے ٹماٹروں سے اتنی مقدار میں لائیکوپین حاصل کرنے کے لیے دن میں دو کلو ٹماٹر کھانا ضروری ہوتا۔
mardana kamzori ka desi ilaj ٹماٹر مرد کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرسکتا ہے؟

ایسے جوڑے جو بے اولاد ہوتے ہیں ان میں سے نصف میں مردوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔

مرد اور عورت کی زرخیزی کے علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے مرد جن کو بچہ نہ پیدا کرنے کے بارے میں شکایتیں ہیں، ان پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

برطانیہ کے قومی صحت کے ادارے، نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس)، کی ایسے مردوں کے لیے، جن کو بچہ پیدا کرنے کی کم صلاحیت کی شکایات ہوتی ہیں، دی جانے والی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ وہ صحت مند طرزِ زندگی اختیار کریں اور زیرِ جامہ ڈھیلے ڈھالے کپڑے (انڈروئیر، وغیرہ) پہنیں۔

این ایچ ایس مزید تجویز کرتی ہے کہ اپنے آپ پر اعصابی دباؤ کو بھی کم کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنی ساتھی سے اُس دور میں سیکس باقاعدگی کے ساتھ کرتے رہیں جن دِنوں وہ زیادہ زرخیز ہوتی ہے تاکہ اس کے حاملہ ہونے کے امکانات زیادہ سے زیادہ ہوں۔

لیکن معاشرے میں یہ خیال کافی زیادہ مقبول ہے کہ بعض اشیا کے کھانے سے مرد کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

وٹامن ای اور زِنک کی طرح جو اب تک اس مسئلے کے حل کے طور پر تحقیقات کا موضوع رہے ہیں، ليكوپين بھی ایک اینٹی اوکسیڈنٹ ہے۔ اینٹی آوکسیڈنٹ خون کے خلیوں میں آکسیجن کی کمی کو روکتا ہے اور اس طرح انھیں نقصان سے بچاتا ہے۔

اس کے صحت کے دیگر فائدوں سے بھی تعلق بنتا ہے جن میں امراضِ قلب اور بعض حالتوں میں کینسر کے خطرات میں بھی کمی آتی ہے۔

’دی شیفیلڈ‘ نامی ایک تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے تجربے میں مردوں پر لیکٹو لائکوپین سپلیمنٹ کو ایک اضافی غذا کے طور پر استعمال کیا، کیونکہ عموماً بنیادی خوراک میں جو غذائیت ہوتی ہے اُسے جسم اچھی طرح جذب نہیں کر پاتا۔ لہٰذا انھوں نے سپلمنٹ کے استعمال سے کوشش کی کہ تحقیق میں شامل ہر مرد کو ایک جتنی مقدار میں یہ اضافی غذا ملے۔

اگر ٹماٹروں کو عام طریقے سے پکایا جائے تو لائیکوپین کی ضروری مقدار کے لیے مردوں کو ہر روز دو کلو ٹماٹر کھانے پڑیں گے۔

نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں
ان بارہ ہفتوں کے تجربے کے عرصے میں، جس کے لیے اُس کمپنی نے مالی امداد دی تھی جو کہ یہ سپلمنٹ تیار کرتی ہے، 60 مردوں کو چن لیا گیا جو 14 ملی گرام لیکٹو لائکوپین فی دن کے لحاظ سے کھاتے رہے۔

اس تجربے کے آغاز کے وقت، پھر چھ ہفتوں کے بعد اور پھر تجربے کے اختتام پر ان سب کے سپرم کا ٹیسٹ لیا گیا۔ اگرچہ ان کے سپرم کی مقدار میں کوئی فرق نہیں پڑا، تاہم سپرم کی شکل اور ان کی حرکت کی رفتار ان مردوں میں زیادہ تھی جو لائکوپین کھا رہے تھے۔

یونیورسٹی آف شیفیلڈ میں انسانی غذائیت کے علوم کی ماہر، ڈاکٹر لِز ولیمز جو اس تحقیقی ٹیم کی سربراہ تھیں جسے بعد میں یورپین جرنل آف نیوٹریشن نے شائع کیا، کہتی ہیں کہ ’فی الحال ہم مردوں کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتے ہیں۔‘

’ہم ان کو یہ کہیں گے کہ وہ شراب نوشی کم کریں اور صحت مند خوراک کھائیں، یہ معمول کی ہدایات ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ایک چھوٹی سے تحقیق تھی اور اس پر مزید کام کرنے کے لیے زیادہ بڑی سطح کی تحقیق کی ضرورت ہے، تاہم اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں۔‘

’اگلی سطح پر اُن مردوں پر تجربہ کیا جائے گا جنھیں زرخیزی کے بارے میں شکایات ہیں، اور پھر ہم دیکھیں گے آیا لائکوپین ان مردوں کے سپرم کی صلاحیت کو بہتر کرپاتی ہے یا نہیں اور آیا یہ ان جوڑوں کو بچہ پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے یا نہیں۔ اس تحقیق سے بچہ پیدا کرنے کا علاج آسان ہو جائے گا۔‘

برطانیہ میں لیورپول ویمن ہسپتال کے ہیویٹ فرٹیلیٹی سینٹر کے کلینیکل ڈائریکٹر اینڈریو ڈراکلی کہتے ہیں کہ ’خفیف زرخیزی والی شکایات والے جوڑوں، یعنی مرد اور عورت دونوں، کی صحت کو بہت کرنے سے ناگوار اور مہنگے علاج کے طریقوں سے بچا جاسکتا ہے۔‘

لیکن انھوں نے مزید کہا کہ ’اس سے پہلے کہ اس طریقے کو علاج کے طور پر استعمال کیا جائے، خفیف زرخیزی رکھنے والے افراد پر مزید تجربوں کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس طریقہِ علاج سے ان کی طاقت میں کتنا اضافہ ہوتا ہے۔‘

رضاکارانہ طور پر کام کرنے والی ایک تنظیم، ’فرٹیلیٹی نیٹ‘ سے وابسطہ گوئینڈا برنز کہتی ہیں کہ ’اگرچہ یہ فی الحال بہت ہی ابتدائی سطح کی تحقیق ہے، لیکن اس سے ایک امید نظر آتی ہے کہ سپرم کی صلاحیت اور صحت میں بہتری آئے گی اور اس سے مرد کی زرخیزی کے بارے میں بہتر آگاہی پیدا ہوگی۔‘

لکوریا کیا ہے اور اس کا علاج کیسے کیا جائے؟

مشرقی معاشروں میں شرم وحیا کی وجہ سے بہت سی جنسی بیماریوں سے متعلق بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا جاتا جس کی وجہ سے جوانی بھی برباد ہوجاتی ہے ، ایسی بیماریوں میں بواسیر اور عورتوں کیلئے لیکوریا جیسے مرض شامل ہیں۔
عورتوں میں عام پائی جانیوالی بیماری لیکوریا یا پھرسیلان رحم ہے جو بذات خود کوئی بیماری نہیں بلکہ بیماریوں کے سبب ظاہر ہونے والی ایک علامت ہے۔ سیلان رحم سے مراد خواتین کے پوشیدہ عضو سے بہنے والاسفید یاپیلے رنگ کا مادہ ہوتاہے،اگر چہ یہ ڈسچارج جینیاتی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے اہم ہے مگر بعض صورتوں میں خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

#علامات
اگر یہ ڈسچارج سفید اور بدبو کے بغیر ہوتو نارمل سی بات ہے لیکن اگر یہ گاڑھا اور بدبو دار ہو تو لیکوریاہے۔ نیوزویب سائٹ پڑھ لو کے مطابق لیکوریا خواتین کی ایک ایسی بیماری ہے جو عورتوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے،شدید جسمانی کمزوری ، کمر درد، ماہانہ نظام میں خرابی ، حمل کا نہ ٹھہرنا، ٹانگوں میں درد ، بھوک نہ لگنا، جگر کے افعال میں کمی، وزن کا تیزی سے گھٹنا ، لو بلڈ پریشر ، اداسی ، بانجھ پن، نسوانی حسن میں کمی ، چہرے کی بے رونقی ، خون کی کمی، طبیعت میں سستی اور جلدی غصہ آنا، دل ڈوبنا وغیرہ یہ تمام مسائل لیکوریا کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔

#علاج
کیلالیکوریا کیلئے مفید ہے کیلاکھاکر دودھ میں شہد ملاکرپی لیں، ہلدی کے کیسپول بھر کرروزانہ ایک ایک کھالیں، بھنے ہوئے چنے،مصری یاگڑ، تھوڑاساچندیاگوندھ،اور چند دانے چھوٹی الائچی باریک پیس کر شیشے کی بوتل میں رکھ لیں اور ایک چمچ صبح اور ایک چمچ سونے سے پہلے کھالیں۔

(ڈاکٹر شازیہ اعجاز)

نیم کادرخت ان درختوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ نے بے انتہافوائد بخشے ہیں۔اگر یہ کہاجائے کہ نیم کے بغیر حکمت نامکمل ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔قدرت نے اس کو خاص قوت عطاکی ہے۔نیم کے تما م اجزاء بطوردوا استعمال کئے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ اسکاسایہ بھی صحت بخش ہوتاہے۔نیم کے پھل کو نبولی کہتے ہیں جو دوا کے طورپر کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں۔نیم کی نبولی بھی نیم کی طرح فائدہ مند ہوتی ہے۔کچی نبولیاں میں سے کڑوادودھ نکلتاہے لیکن پکنے پرپیلی نبولیاں میٹھی ہوجاتی ہیں۔نیشنل ریسرچ کونسل کے تحت ہونے والے مطالعے کے مطابق نیم برتھ کنٹرول،ماحولیاتی آلودگی اورکیڑوں سے نجات کاذریعہ بن سکتاہے اورترقی پذیر ممالک کے لئے مفیدثابت ہوسکتاہے۔

۱۔نبولی خون صاف کرتی ہے۔
۲۔نیم کی پکی نبولیاں چوسنے سے پیٹ کے کیڑے مرجاتے ہیں۔
۳۔یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لئے انسولین کاکام کرتی ہے۔
۴۔نبولی کاپانی پینے سے مچھر کے کاٹنے سے کوئی نقصان نہیں پہنچتاہے۔
۵۔نبولی کے مغز کاتیل زخموں کوبہت جلد ٹھیک کردیتاہے۔
۶۔پرانے زمانے میں عورتیں جب برتھ کنٹرول کرناچاہتی تھیں تو نبولی کھاتی تھیں۔
اسے نہارمنہ نہ کھائیں اورمخصوص ایام کے فوراً بعد بھی نہ کھائیں۔

نبولی کے استعمال کے طریقے


وائرل بخار :

تخم بلنگا
نبولی
یہ دونوں اجزاء ہم وزن لے کر پیس کر دن میں دودفعہ لیں۔پانچ سے چھ سال کے بچے کے لئے ایک چوتھائی چمچ اور بڑے ہوں تو انکے لئے آدھاچمچ لیں۔دودن کے اندر آرام آجائے گا۔

خارش کے لئے:

نیم کے پتے پسے ہوئے بیس گرام
نیم کی چھال بیس گرام
نبولی بیس گرام
سو ملی لیٹر سرسوں کے تیل میں ان تمام اجزاء کوڈال کر پکالیں۔اسکے بعد اسمیں تین گرام کافور شامل کریں ۔اور استعمال کریں۔اس سے خارش،ایگزیما،چنبل،داغ اورچھائیاں بھی ختم ہونگی۔

کینسر سے بچاؤ:

نبولی
نرکچور
ہم وزن لے کر کوٹ کررکھ لیں۔ہفتے میں تین دفعہ ایک چوتھائی چمچ لینے سے کینسر جیسے مرض سے بچاجاسکتاہے۔ کینسر کے مریض دن میں چار دفعہ لے سکتے ہیں۔

جھڑتے بال:

نبولی دوچمچ
آملہ،کلونجی اورزیتون کاتیل ہم وزن
میتھی دانہ دوچمچ
ان تمام اجزاء کوملاکر پکالیں۔آخر میں آدھاچمچ جائفل جاوتری شامل کریں۔ٹھنڈاہونے پر ہتھیلوں پر رگڑ کر بالوں کی جڑوں میں مساج کریں۔

انسولین کنٹرول کرنے کے نسخے

انسولین کیا ہے؟

انسولین لبلبے میں موجود ایک ایسا ہارمون ہوتا ہے جب ہم غذائیں کھاتے ہیں انسولین غذاؤں میں موجود شوگر یعنی گلوکوس جو ھمارے جسم کے لئے بہت ضروری ہے اسکو خون تک پہچتا ہے اور جو گلوکوس بچ جاتا ہے اسکو محفوظ کر لیتا ہے۔ اگر آسان لفظوں میں کہا جائے تو یہ ھمارے خون میں شوگر لیول کو مستوازن رکھتا ہے جب بھی خون میں شوگر کی سطح کم ہوتی ہے۔ یہ خون میں محفوظ کیے ہوے گلوکوس میں سے اس کمی کو پورا کرتا ہے۔

انسولین کی سطح کو کس طرح برقرار رکھ سکتے ہیں یہ نیچے دی گئی تفصیل میں موجود ہے۔

سبزیاں

قدرتی غذائیں خاص طور پر سبزیوں کا استعمال بہت فائدے مند ہے سبزیوں میں وٹامن منرلس اور فائبر کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے اپنی غذاؤں میں کم سے کم دن میں دو بار سبزیوں کے استعمال کو یقینی بنائیں سبزیاں آپ سلاد کی صورت میں استعمال کر کے بھی ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

سوفٹ ڈرنک

سوفٹ ڈرنک میں ایسے اجزا شامل کیے جاتے ہیں جن میں نا مناسب شوگر کی ایک بھاری مقدار پائی جاتی ہے جو صحت اور انسولین کے لئے نقصان دہ ہے انکی جگا اگر تازہ پھلوں یہ سبزیوں کا رس استعمال کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

مصنوئی شوگر

غیر معیاری ٹافی اور چوکلیٹ کا استعمال ختم کر دیں کیوں کے ان میں مصنوئی شکر کا استعمال کیا جاتا ہے جو صحت کے لئے نقصان دہ ہونے کے ساتھ ساتھ خون میں بھی شکر کی سطح کے اضافے کا سبب بنتی ہے۔

ورزش

روزانہ کم سے کم تیس منٹ کی ورزش آپکے خون میں شوگر کی سطح کو مستحکم رکتھی ہے اور آپکے انسولین کے کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔

اومیگا تھری

ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن میں اومیگا تھری کی وافر مقدار موجود ہو اسکے لئے آپ مچھلی زیتون کا تیل مگر ناشپاتی اور ایسے سپلیمنٹس کا استعمال کریں جس میں اومیگا تھری کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔

چھاتیوں کا سائزبڑھانے کے آسان طریقے

ﺑﺮﯾﺴﭧ ﺳﺎﺋﺰ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ :

ﺍﯾﮏ ﺳﺮﻭﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎ ﺑﻖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﮩﯽ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻧﻮﮮ ﻓﯿﺼﺪ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﺳﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﭗ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﻂ ﺑﺮﯾﺰﺋﯿﺮ ﯾﺎ ﺑﺮﺍ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﮐﺎ ﻟﭩﮏ ﺟﺎﻧﺎ , ﺳﺎﺋﺰ ﮐﺎ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﻧﺎ , ﺍﯾﮏ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ , ﺷﯿﭗ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺋﺰ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺭﮦ ﺟﺎﻧﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺳﮯ ﺩﻭﭼﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ , ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﺷﺪﮦ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﮐﮯ ﻧﻮﮮ ﻓﯿﺼﺪ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻏﻠﻂ ﺳﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﭗ ﮐﯽ ﺑﺮﺍ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﮯ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﭨﺮﯾﭩﻤﯿﻨﭧ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺩﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺩﺭﺳﺖ ﺳﺎﺋﺰ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻓﻮﺭﺍ ﺑﺮﺍ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﯾﮟ.

ﺳﺎﺋﺰ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ :

ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ‏( ﺍﻟﻒ ‏) ﺳﺎﺋﺰ ﻟﯿﮟ ﺍﻧﭻ ﭨﯿﭗ ﮐﻮ ﮔﻮﻻﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﻦ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺳﺎﺋﺰ ﻟﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﺳﮯ ﻋﯿﻦ ﻧﯿﭽﮯ ﭘﺴﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﺍ ‏( ﺏ ‏) ﺳﺎﺋﺰ ﻟﯿﮟ , ‏( ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻒ ﺳﺎﺋﺰ ﯾﺎ ﺏ ﺳﺎﺋﺰ ﻃﺎﻕ ﻧﻤﺒﺮﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻤﺒﺮ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﺟﻔﺖ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ‏) , ﺍﺏ ﺍﻟﻒ ﺳﺎﺋﺰ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺏ ﺳﺎﺋﺰ ﻣﻨﻔﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﺋﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺪﻭﻝ ﺳﮯ ﺍﭖ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺋﺰ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ .

ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭘﻮﺭﺍ ﺳﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﭗ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺑﺮﺍ ﺧﺮﯾﺪﯾﮟ ﻣﺜﻼ 32D ﯾﺎ 36B ﯾﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﭖ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﺰ ﮨﻮ

ﺑﺮﺍ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺑﺮﺍﻧﮉﮈ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭﻭﻧﯽ ﺣﺼﮧ ﯾﺎ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﻣﯿﮟ ﭨﯿﮓ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ A,B,C ﯾﺎ D ﺿﺮﻭﺭ ﭼﯿﮏ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ

ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺮﺍ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﮉ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﮐﻮ ﻟﭩﮑﻨﮯ ﯾﺎ ﺷﯿﭗ ﺧﺮﺍﺏ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺋﮯ .
ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ , ﮔﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﭨﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﮨﺮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﺮﯾﺴﭧ ﮐﯽ ﺟﻠﺪ ﺑﮩﺖ ﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻏﻠﻂ ﺩﻭﺍ ﯾﺎ ﻧﺴﺨﮯ ﺳﮯ ﺍﻟﺮﺟﯽ , ﺍﻧﻔﯿﮑﺸﻦ ﯾﺎ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﻘﺼﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺎﮨﺮ ﻣﻌﺎﻟﺞ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﻦ ﭨﺎﺋﭗ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﻭﺍﺋﮯ ﺑﻨﺎﺀ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺴﺨﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ .

بہت سی خواتین بریسٹ سائز بڑھانے کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتی ہیں جن میں بہت مہنگے اور تکلیف دہ طریقے بھی استعمال کئے جاتے ہیں مثلاً سرجری ایک مہنگا اور خطرناک طریقہ ہے یعنی اس کے مضر اثرات زیادہ ہیں اور فوائد میں نسبتاً کم موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس لئے عام درجے اور دیگر خواتین سرجری جیسے تکلیف دہ عمل سے گریز کرتی ہیں۔ بریسٹ سائز کی بڑھوتری کا دارومدار عمر اور صحت پر منحصر ہوتا ہے لیکن بعض خواتین ہارمون کی کمی و زیادتی اور غیر تسلی بخش صحت بھی بریسٹ کی نشونما پر اثر انداز ہوتی ہے۔

چند قدرتی طریقے اپنا کر آپ بریسٹ سائز کو بڑھا سکتی ہیں۔ اگر آپ بغیر سرجری اور لیزر کے اپنے بریسٹ کو پرکشش بنانا چاہتی ہیں تو آپ کو اپنی مکمل صحت کیلئے وقت کرنا ہوگی جس کیلئے آپ اپنی خوراک اور معیاری اور متوازن صورت میں ترتیب دیں یہ آپکی مکمل صحت اور فٹنس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اچھی اور معیاری خوراک کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طور پر ورزش کو اپنا معمول بنایا جائے اور ہوسکے تو کسی جم یا کلب میں مخصوص چیسٹ ایکسر سائز کی جائے اس سے آپ کی چھاتی کے مسلز مضبوط ہوں گے اور بہتر طور پر نشونما پاسکیں گے۔

بعض خواتین کا بلوغت کی ابتداء میں ہی ہارمون کے مسائل پیش آجاتے ہیں اور مخصوص ہامون جیسے ایسٹروجن کہتے ہیں اپنا کام سر انجام نہیں دے سکتا اور خواتین کے بریسٹ بڑھنا رک جاتے ہیں اس کیلئے مارکیٹ میں بہت سے قدرتی سپلیمنٹ دستیاب ہیں جن میں ایسٹروجن موجود ہوتا ہے اس کے استعمال سے مناسب طور پر بریسٹ کو پرکشش بنایا جاسکتا ہے۔

علاوہ ازین حیض کے دوران پیچیدگی کی صورت میں ہارمون پروجسٹرون کے قدرتی عمل میں خلل پیدا ہوجاتا ہے اور یہ ہارمون باقاعدگی سے اوریز اور میمری گلینڈ کو متحرک نہیں کرپاتا جس سے اعضائے مخصوصہ کی نشونما متاثر ہوتی ہے اس لئے ایسٹروجن اور پروجسٹرون پر مبنی ادویات ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق استعمال کریں یہ بذریعہ دہن اور بیرونی استعمال کیلئے موثر ثابت ہوتی ہے اور ان کے استعمال سے بہتر طور پر بریسٹ کو نمایوں کیا جاسکتا ہے۔

مڈل ایسٹ کی خواتین بہت سی جڑی بوٹیاں استعمال کرتی ہیں جن سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ان میں فنگریک اور فینیل کا نام قابل ذکر ہیں ان کے ایکسٹریکٹ چھاتیوں کے مسلز کو کافی حد تک بڑھا دیتے ہیں اور عمر کے تقاضے سے چھاتیاں بہتر طور پر نشونما پاتی ہیں یہ اجزاء آپ کو کسی بھی یونانی اسٹور سے مل سکتے ہیں جن کو آپ اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق خرید سکتی ہیں۔

بریسٹ سائز بڑھانے کے کچھ دیسی ٹوٹکے

شہد کو روغن ارنڈ میں ملا کر نیم گرم کریں اور ہلکے ہاتھ سے بریسٹ پر مالش کریں بعد میں برگ ارنڈ اوپر سے باندھ لیں۔ اس عمل سے بریسٹ دن بدن بڑھنا شروع ہوجائیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ عمل متواتر کیا جائے۔

ہومیو پیتھک دوا فائی ٹو لاڈی سینڈرا 30 کی طاقت کا کہہ کر کسی بڑے ہومیوپیتھک اسٹور سے طلب فرمائیں یہ آزمودہ نسخہ ہے۔

اگر بریسٹ میں ورم ہو تو عرق گلاب ‘ اسپغول کی بھوسی اور سرکہ ان تمام چیزوں کو بریسٹ پر لگائیں۔
سرکہ انگوری میں کپڑا تر کرکے ہر وقت بریسٹ پر لپیٹ کر رکھیں اس سے بہت جلد ہی بریسٹ کا سائز بڑا ہونا شروع ہوجاتا ہے.

کنواری اور شادی شدہ لڑکیوں کے بریسٹ سائز میں فرق ہوتا ہے۔ اگر کنواری لڑکیوں کی بات کی جائے تو ان کے نیپل بھی اندر کی طرف دبے ہوئے ہوتے ہیں اور ایک بریسٹ چھوٹا اور دوسرا بڑا ہوتا ہے۔

بریسٹ سائز کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا کوئی بیماری یا پریشانی کی بات نہیں۔ لیکن nipple کا develop نا ہونا شادی اور بچے کے بعد پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک ماہر خاتون کا کہنا ہے کہ یہ ورزش بہت easy ہے اور میں حاملہ خواتین کو کرواتی ہوں۔ کنواری لڑکیاں نہانے کے بعد اپنے دنوں بریسٹ کے nipples کو آہستہ آہستہ باہر کی طرف کھینچیں۔ روزانہ اس طرح کرنے سے آپ کے nipples شادی سے پہلے کافی بہتر ہو جائیں گے۔ 

کامیاب حمل کےلئے (نر میں) مادہ منویہ میں موجود اسپرم اور (عورت میں) انڈے / اسکینڈری اووسائٹ / جنسی اعضاء کا صحت مند / نارمل ہونا ضروری ہے۔اِن میں ذرا سا بھی نقص / کمی بانجھ پن یا ناکام حمل  کا سبب بن سکتی ہے۔ذیل میں تفصیل درج کی جا رہی ہے 
بانجھ پن : اگر ایک جوڑا متواتر ایک سال تک مباشرت / جنسی عمل کرتا ہے لیکن حمل نہیں ٹھہرتا تو اِس حالت کو 'بانجھ پن' کہا جاتا ہے۔یہ مرد و عورت دونوں میں یا کسی ایک میں ہوسکتا ہے ۔

مردانہ بانجھ پن :

مردوں کے بانجھ پن کو ڈسکس کیا جائے تو مردانہ بانجھ پن میں اسپرمز کی کمی / حرکت پذیری کا نہ ہونا یا کم ہونا اور اسپرمز کی شکل و صورت کا نارمل نہ ہونا شامل ہیں۔یہ سب کسی سبب یعنی بیماری یا ہارمونل مسائل کی وجہ سے ہوسکتا ہے جنہیں ذیل میں لکھا جارہا ہے

1. کرِپٹو آرکِڈ ازم (خصیوں کا نیچے تھیلی میں نہ اُترنا)
2. انفیکشن / بیکٹریل یا وائرل انفیکشن
3. جنسی اعضاء کا کسی زخم سے متاثر ہونا
4. ویرِیکوسِیل (تھیلی کی وریدوں کا پُھول جانا)
5. جینیاتی خرابی / ڈی این اے میں مسئلہ ہونا (اِس صورت میں حمل ٹھہر بھی جائے تو مِس کیرج ہوسکتا ہے یا بچہ پیدا ہو بھی جائے تو کسی جینیاتی خرابی سے متاثر ہوگا)
6. اسٹیرائڈز کا استعمال
7. ریٹروگریڈ ایجیکیولیشن (منی کا مثانہ میں چلے جانا)
یہ تمام مسائل اسپرمز کی پروڈکشن / حرکت پذیری اور تعداد کو متاثر کرتے ہیں جس سے حمل ٹھہرنے کے چانسز کم ہوجاتے ہیں اِن کے علاوہ دوسرے وجوہات بھی ہوسکتی ہیں (جوکہ ایک ماہر ڈاکٹر اِن فرٹیلیٹی اسپیشلسٹ مختلف ٹیسٹوں کی مدد سے تشخیص کر سکتا ہے)

زنانہ بانجھ پن :

زنانہ بانجھ پن میں بھی تولیدی اعضاء کی کوئی خرابی موجود ہوتی ہے۔ذیل میں ڈسکس کیا جارہا ہے
1. ہارمونل مسائل (متعلقہ ہارمونز کی کمی سے اووری سے انڈے کے ریلیز ہونے میں مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے)
2. پولی سسٹک اوورین سنڈروم
3. پولِپس / Polyps
4. تھائی رائیڈ گلینڈز کے مسائل
5. فیلوپین ٹیوبز کا بلاک / بند ہونا (نتیجے میں انڈہ فیلوپین ٹیوب میں حرکت نہیں کرپاتا / داخل نہیں ہوسکتا) / انڈوں کا صحت مند نہ ہونا
6. انفیکشن
7. یوٹرس کا نارمل نہ ہونا

یہ تمام ممکنہ اسباب ہیں جو کامیاب حمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں (اس کے علاوہ دوسری وجوہات بھی ہوسکتی ہیں جنہیں یہاں ڈسکس نہیں کیا جارہا)

نوٹ : اِس پوسٹ کو بنیاد بنا کر خود سے کوئی تشخیص نہ کریں۔مزید مشورے یا علاج کےلئے کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیجئے۔فیس بک پر بتائی گئی یا کسی دوست کے مشورہ پر کسی قسم کی دوا استعمال نہ کیجئے۔شکریہ

مغرب میں واٹر برتھ پروسس کا تیزی سے مقبول ہوتا رجحان
تکلیف بھی کم اور خرچہ بھی ! پھر ہم اس سے گریزاں کیوں؟
فرحین شیخ

زمانہ حمل کسی بھی عورت کی زندگی کا سب سے خوب صورت وقت ہوتا ہے۔ نو ماہ بعد ایک نئی زندگی عورت کی جان
سے طلوع ہوتی ہی ہے، جسے دیکھ کر عورت اس درد اور تکلیف کو یکسر بھلا دیتی ہے جسے اس نے متواتر نو مہینے جھیلا ہوتا ہے۔ فی زمانہ، دورانِِ حمل، عورت کا زیادہ تر وقت اسپتال کے چکروں میں گزر جاتا ہے۔ لاتعداد دوائیں، جن کی اکثر عورت کو ضرورت بھی نہیں ہوتی وہ نسخے کے طور پر تجویز کردی جاتی ہیں۔ کسی قسم کی پیچیدگی کا شکار نہ ہونے کے باوجود عورت نفسیاتی طور پر اس دباﺅ میں ڈال دی جاتی ہے کہ اگر یہ دوائیں نہ لیں اور خون اور پیشاب کے مختلف ٹیسٹ باقاعدگی سے نہ کروائے تو بے شمار مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اور یوں اللہ اللہ کر کے زمانہ ¿ حمل جیسا خوب صورت وقت لاتعداد تفکرات، پریشانیوں اور اسپتالوں کے چکروں میں گزر کر اختتام پذیر ہوجاتا ہے اور پھر بچے کی پیدائش کا دن آن پہنچتا ہے ۔ وہ دن جس کا انتظار ہر جوڑے کو بے چینی سے ہوتا ہے۔ اسی خوشی کے حصول کے لیے نو ماہ کی جسمانی اور مالی مشقت کبھی خوشی سے تو کبھی مجبوراً برداشت کرلی جاتی ہے، لیکن یہ ایک دن تو گویا نو مہینوں سے زیادہ بھاری ثابت ہوتا ہے۔ سسرال والے ایک پاﺅں پر کھڑے نظر آتے ہیں تو میکے والے بھی دوڑ لگاتے ہیں۔ والدین بننے والا جوڑا اس دن سب سے زیادہ پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔ مرد کی نظریں اپنے آنگن میں گونجنے والی چہکار سے زیادہ اسپتال کے خرچوں پر مرکوز ہوتی ہیں تو دوسری جانب لیبر روم کے اندر انجیکشن اور ڈرپوں کے سہارے عورت کو ناقابلِ برداشت تکلیف میں مبتلا کرنے کا کام پوری تن دہی سے جاری ہوتا ہے۔ عورت کی جان اور مرد کی جیب دونوں ناقابلِ برداشت بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ اس خطرناک صورت حال کو دیکھتے ہوئے اکثر یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ بچے کی پیدائش کا خوب صورت اور قدرتی عمل اس قدر پیچیدہ، تکلیف دہ اور مہنگا کیوں بنادیا گیا ہے ؟ کیا بے شمار ادویات اور بھاری رقوم کے بغیر نارمل ڈلیوری ہونا واقعی ممکن نہیں؟
سائنس کا ذرا سا بھی مطالعہ رکھنے والے افراد اس بات سے بہ خوبی واقف ہوں گے کہ عورت اگر صحت مند بچے کو نارمل طریقے سے جنم دے رہی ہو تو اسے کسی قسم کی ادویات کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن بدقسمتی سے ہمارے اور ہم جیسے پس ماندہ معاشروں میں زمانہ حمل میں اور ڈلیوری کے وقت ادویات کا بے دریغ استعمال گویا لازمی مضمون سمجھ کر کروایا جاتا ہے۔ لیکن یہ جان کر سب کو حیرت ہوگی کہ جدید سائنس کی بدولت اب مغربی معاشرہ عورت کے لیے ڈرگ فری ڈلیوری کی راہ ہموار کر چکا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں یہ تصور محض ایک بھیانک خیال سے زیادہ کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ ہماری آج کی تعلیم یافتہ عورت کے لیے بھی ڈرگ فری ڈلیوری کے تصور کو ہضم کرنا ناممکن ہے۔

ڈرگ فری ڈلیوری کا اس وقت سب سے تیزی سے مقبول ہوتا طریقہ واٹر برتھ پروسس( Water Birth Process ) ہے۔ پانی کے اندر بچے کی پیدائش شاید ہمارے لیے ایک اچھوتا خیال ہو لیکن یہ درحقیقت فطرت سے بے حد قریب اور عورت کے لیے نسبتاً کم تکلیف دہ طریقہ ہے۔ 1805میں فرانس میں پہلی بار واٹر برتھ پروسس کو متعارف کروایا گیا، جب ایک عورت کو اڑتالیس گھنٹے مستقل درد اٹھانے کے بعد ڈاکٹروں نے اسے گرم پانی کے ٹب میں بیٹھنے کا مشورہ دیا ، جس کے پندرہ منٹ کے اندر اندر ہی اس نے بنا کسی پیچیدگی کے ایک صحت مند بچے کو جنم دے دیا۔ 1960میں یہ طریقہ روس کے اسپتالوں میں آزمایا گیا اور نہایت کام یاب رہا۔ روس میں واٹر برتھ کو متعارف کروانے والے ڈاکٹر نے اس تجربے کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ ٹھنڈے ماحول کے بجائے گرم پانی میں بچے کی پیدائش کا عمل نہ صرف ماں کو بہت سی تکالیف سے بچاتا ہے بلکہ یہ بچے کے دماغ اور اس کی سیکھنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ اس انکشاف کے باوجود بھی ایک عرصے تک دنیا نے اس طریقے کو خاطر خواہ اہمیت نہ دی۔ 1970میں فرانس کی مڈ وائفس اور ڈاکٹروں نے اس طریقے کو مزید رواج دینے کا ارادہ کیا اور جوڑوں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے مختلف پروگرامز بھی ترتیب دیے۔ فرانس کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ پیدائش کا رائج الوقت طریقہ عورتوں اور نومولود بچوں کے لیے اکثر مختلف قسم کے ٹراما کا باعث بن جاتا ہے اور پیدائش کے وقت پیدا ہونے والی پیچیدگیاں اکثر ساری زندگی ماں اور بچے کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ فرانسیسی ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق رحمِ مادر سے ماں کے بازوﺅں تک پہنچنے کا یہ سفر گرم پانی میں طے ہو تو بچے کے لیے نہایت فرحت کا باعث بنتا ہے۔ اس عمل سے پیدا ہونے والے بچے دنیا میں آکر بے حد پُرسکون رہتے ہیںاور خشکی میں پیدا ہونے والے بچوں کی بہ نسبت بہت کم روتے ہیں۔ 1980میں امریکا میں واٹر برتھ کے ذریعے پہلی ڈلیوری کروائی گئی، جس میں صرف نوے منٹ کے دردِزہ کے بعد صحت مند بچے نے دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ 1989میں امریکی چرچ نے ایک رپورٹ شایع کی جس میں بتایا گیا کہ گذشتہ چار سال میں کیلیفورنیا کے اسپتال میں چار سو تراسی بچوں کی پیدائش واٹر برتھ پروسس کے ذریعے ہوئی اور ان میں سے ہر بچہ صحت مند اور محفوظ ہے۔

مختلف تحقیقی کاوشوں اور آگہی منصوبوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوے کی دہائی کے اختتام تک واٹر برتھ پروسس یو کے، یورپ، امریکا اور کینیڈا میں تیزی سے رواج پانے لگا۔ برطانیہ میں 1992اور 1993میں دو رپورٹیں شایع ہوئیں، جن میں واٹر برتھ پروسس کے عمل کی اہمیت کو واضح کیا گیا۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی اصرار کیا گیا کہ ڈلیوری کے وقت عورت کو اس بات کی بھی آزادی دی جائے کہ وہ جس پوزیشن میں بھی آرام محسوس کرے، اس میں ہی رہتے ہوئے اپنے بچے کو جنم دے۔ ان رپورٹوں کے بعد برطانیہ کے اسپتالوں میں تیزی سے برتھ پُول قائم کیے جانے لگے۔ رائل کالج آف مڈوائفس نے اس طریقے کی مکمل حمایت جاری رکھی اور عملے کو واٹر برتھ کے لیے تربیت فراہم کرنے کے لیے شعبے قائم کیے گئے۔ نیز وہ جوڑے جو اسپتال کے بجائے گھر میں ڈلیوری کروانا چاہتے تھے، تربیت یافتہ عملہ ان کی مدد اور راہ نمائی کے لیے وہاں ساتھ موجود ہوتا۔

1996میں بیلجیم میں یہ طریقہ انتہائی مقبول ہوا اور وہاں ہر آٹھ ہزار میں سے ڈھائی ہزار بچے اسی طریقے سے دنیا میں آنے لگے، ان میں سے ہر کیس میں مائیں اور بچے کسی بھی قسم کے انفیکشن سے محفوظ تھے۔

نوے کی دہائی وہ دہائی تھی جس میں واٹر برتھ پر بے شمار تحقیقی کام ہوا، لیکن اب بھی پیدائش کے لیے اس عمل کا انتخاب کرنے والے جوڑوں کی تعداد بہت کم رہی۔ حتٰی کہ 2007میں بھی نارمل ڈلیوری کی حاملہ خواتین میں سے صرف تین فی صد عورتوں کا انتخاب واٹر برتھ پروسس ٹھہرا۔ رفتہ رفتہ ذہن بدلنے لگے اور یہ طریقہ قبولیت اختیار کرنے لگا اور2014 میں وہ وقت بھی آیا کہ صرف یو کے میں اس طریقے کا انتخاب کرنے والے جوڑوں کی تعداد تیس فی صد تک جاپہنچی اور اب یہ طریقہ ایشیا کی خواتین میں بھی فطری طریقے سے پیدائش کے عمل سے گزرنے کی آمادگی پیدا کر رہا ہے۔ رواں سال جولائی کے مہینے میں ابوظبی کے برجیل اسپتال میں پیدا ہونے والی ننھی عائشہ یہاں کی پہلی واٹر برتھنگ بے بی قرار پائی ہے۔ اس کیس کی نگراں ڈاکٹر سوسن عبدالرحمان نے گلف نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ طریقہ ¿ پیدائش بے حد آسان اور عین فطری ہے اور اس میں عورت کو درد بڑھانے کی کوئی دوا دینے کی ضرورت ہی نہیں، انہوں نے کہا کہ اس طریقے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈلیوری کے فوراً بعد عورت اپنے معمول کے کاموں میں آسانی سے مصروف ہو جاتی ہے۔

اگست کے مہینے میں برازیلین نژاد بولی وڈ اداکارہ اور ماڈل برونا عبداللہ نے ممبئی کے ایک اسپتال میں واٹر برتھ پروسس کے ذریعے بچی کو جنم دیا۔ ''مائی برتھ اسٹوری'' کے نام سے انہوں نے انسٹاگرام پر ایک تفصیلی پوسٹ بھی شیئر کی۔ برونا نے لکھا کہ ''میں فطری طریقے سے بچے کو جنم دینا چاہتی تھی، جس میں نہ کوئی دوا ہو اور نہ سرجری۔ اس لیے میں نے واٹر برتھنگ کا انتخاب کیا۔ ڈلیوری کے دوران گرم پانی نے میرے اعصاب کو بہت پرسکون رکھا اور میری تکلیف کو حد سے بڑھنے نہیں دیا۔ پیدائش کے اس طریقے نے مجھے مکمل خوشی فراہم کی۔ منٹوں میں میرا درد غائب ہوگیا اور طبیعت بحال ہوگئی۔ یوں میں نے پہلے ہی لمحے سے بیٹی کے ہونے کی خوشی کو محسوس کیا اور اس کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کیے، یہ سب واٹر برتھ پروسس کی وجہ سے ممکن ہوا۔'' بھارت کی ہی ایک اور اداکارہ کالکی کوچلین واٹر برتھنگ کے عمل ذریعے دسمبر میں گوا کے پُرفضا مقام پر اپنے بچے کو جنم دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔

برطانوی اور امریکی ماہرین کے نزدیک واٹر برتھ کو رواج دینا اس لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف ڈلیوری کے وقت کی تکلیف کو گھٹاتا ہے بلکہ بے جا اخراجات سے بھی فرد کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس طریقے میں سب سے زیادہ پُرسکون حاملہ عورت ہوتی ہے جسے پیدا کرنے کے وقت، جگہ اور پوزیشن کے بارے میں مکمل اختیار اور آزادی حاصل ہوتی ہے۔ یہ طریقہ ایسے معاشروں میں خصوصی ثمرات کا باعث بن سکتا ہے جہاں بچے کی پیدائش کے فطری عمل کو نہایت پیچیدہ ثابت کر کے لوٹ مار کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت نارمل ڈلیوری کے اخراجات لاکھوں تک جاپہنچے ہیں۔ یہ وہ تلخ جام ہے جس کے گھونٹ بھلا کس نے نہیں بھریں ہوں گے؟ حمل ٹھہرنے سے لے کر پیدائش تک کا ایک ایک لمحہ صرف جوڑے پر ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے لیے باعث ِتشویش بنا رہتا ہے۔ ولادت کے نام پر کئی کئی دن اسپتالوں میں روکنا، درد بڑھانے کی دوائیں، ڈرپ اور انجیکشن کا استعمال اور پھر ڈلیوری مزید آسان کرنے کے نام پر کٹ مارنے کا عمل عورت کو بعد میں کتنی پیچیدگیوں میں مبتلا کردیتا ہے یہ ہم اپنے آس پاس بکھری کہانیوں میں بہ خوبی دیکھ سکتے ہیں۔

واٹر برتھ پروسس پر ہمارے جیسے معاشروں میں عمل کرنے کی بے حد ضرورت ہے، جہاں نصف سے زائد آبادی معاشی تنگ دستی میں مبتلا ہے۔ اولاد کے حصول کے لیے کوئی مقروض ہوجاتا ہے، تو کوئی اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کوئی بھاری اخراجات کے ڈر سے مزید اولاد کی خواہش کو ہمیشہ کی نیند سلادیتا ہے۔ ماں بننے والی عورتوں کے ساتھ الگ ظلم ہوتا ہے۔ درد بڑھانے کی دوائیں دے کر طویل گھنٹوں تک اسپتال کے بستر پر تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ عورتیں بچہ پیدا کرنے کی قیامت خیز اذیت سے گزر کر ادھ موئی ہوجاتی ہیں، نارمل بچہ پیدا کر نے کے باوجود بھی کئی کئی دن بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں رہتیں۔ بدقسمتی سے صرف اسپتال ہی نہیں بلکہ ناتجربہ کار دائیوں اور مڈوائفس سب نے مل کر پیدائش کے پرسکون اور فطری عمل کو ایک گھن چکر بنا کر رکھ دیا ہے۔

مغربی ممالک میں اس وقت نئی ماں بننے والی عورتوں کی اولین خواہش واٹر برتھنگ بن چکی ہے۔ انڈیا میں بھی اس طریقے کی کافی آمادگی پائی جارہی ہے۔ عام عورتیں ہی نہیں بلکہ سیلیبریٹیز بھی اسی طریقے سے ماں بننے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ ان سب کے نزدیک اس طریقے کو اپنانے کی سب سے بڑی وجہ اس کا ڈرگ فری ہونا ہے۔ ڈاکٹر امیت دھرندر ممبئی میں واٹر برتھنگ کے بانی مانے جاتے ہیں۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے اس پروسس کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیدائش کے وقت عورت کے لیے آس پاس کے ماحول کو جس قدر آرام دہ بنایا جائے گا عورت اتنے ہی فطری طریقے سے بچے کو جنم دے گی۔ اس کے جسم میں اینڈورفنز اور اوکسیٹوکن جیسے مثبت ہارمونز داخل ہوں گے جو ولادت کے فطری طریقے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اگر اطراف کا ماحول عورت کے لیے آرام دہ نہ ہو اور وہ اس سے مطابقت حاصل نہ کر سکے تو اس کے جسم میں اینڈرینالین جیسے منفی ہارمونز داخل ہونے لگتے ہیں جو ولادت کے عمل میں مختلف پیچیدگیوں کا باعث بنتے ہیں۔

واٹر برتھنگ کا عام ہونا بے شک اس وقت کی ایک بڑے ضرورت ہے، لیکن تمام فوائد صرف اسی صورت میں سامنے آئیں گے جب یہ کام ماہرین کی نگرانی میں کیا جائے۔ پانی بہت صاف اور زیادہ مقدار میں ہو اور اس بات کا یقین ہو کہ حمل کسی بھی پیچیدگی کا شکار نہیں اور ڈلیوری بالکل نارمل متوقع ہے۔

ایک لڑکی کی شادی ہوئی

شادی کی پہلی رات دولہا کھانے کا بڑا سارا تھال لئے کمرے میں داخل ہوا
کھانے سے بڑی اشتھا انگیز
خوشبو آ رہی تھی کہنے لگا
اؤ کھانا کھاتے ہیں
 
بیوی بولی میں نے دیکھا ہے تماری ماں نے بھی نہیں کھایا ان کو بھی بلا لو پھر مل کر کھاتے ہیں
کہنے لگا وہ سوگئ ہوگی چھوڑو ہم دونوں کھاتے ہیں
بیوی اسرار کرتی رہی پر وہ اسی بات پر مصر رہا

جب اسنے شوہر کا رویہ دیکھا تو طلاق کا مطالبہ کردیا😦

شوہر بہت حیران ہوا اسکے مطالبے پر لیکن وہ اپنی بات پہ ڈٹی رہی یہاں تک کہ طلاق ہو گئی

دونوں الگ ہو گئے پھر دونوں نے دوسری شادیاں کرلیں 30 سال گزرے گئے عورت کے بیٹے ہوئے بہت محبت کرنے والے بہت آسودہ حال تھی وہ

اسنے ارادہ کیا کہ حج کرنا چاھیے سفر کے دوران بیٹے اس سےکسی ملکہ کی طرح پیش آرہے تھے
پاوں زمین پر لگنے نہ دیتے تھے👸 صحرائی سفر تھا

راستے میں ایک آدمی پر نظر پڑی بہت بری حالت میں بھوکا پیاسہ بال کھچڑی کپڑے پرانے بیٹوں سے کہنے لگی اسے اٹھاو ہاتھ منہ دھلا کر کھانہ کھلاو پلاو
جب اس پر نظر پڑی تو جان گئ وہ اسکا پہلا شوہر تھا👤

کہنے لگی یہ کیا کیا وقت نے تمارے ساتھ بولا میری اولاد نے میرے ساتھ بھلائی نہی کی کہنے لگی کیوں کرتی کہ تم نے والدین کہ ساتھ برا سلوک کیا میں اسی دن جان گئ تھی کہ تم ماں باپ کے حقوق ادا نہیں کرتے
اسی لئے میں ڈر گئ کہ کل کو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا یہ دیکھو اج میں کہاں ہوں اور تم کہاں
ماں باپ کہ ساتھ برا سلوک اللہ کی نافرمانی ہے جس قِسم کا بڑھاپہ ہم گزارنا چاہتے ہیں وہی اپنے والدین کا گزارنے میں مدد کرنی چاہئے کیوں کہ یہ ایسا عمل ہے کہ جس کا بدلہ دنیا میں ہی دیدیا جاتا ہے خواہ اچھا ہو خواہ برا 👉👉👉👉

"عربی حکائت کا اردو ترجمہ"

رات کا پچھلا پہر کیسی نشانی دے گیا 
منجمد آنکھوں کے دریا کو روانی دے گیا 

میں صداقت کا علمبردار سمجھا تھا جسے 
وہ بھی جب رخصت ہوا تو اک کہانی دے گیا 

پہلے اپنا تجزیہ کرنے پہ اکسایا مجھے 
پھر نتیجہ خیزیوں کو بے زبانی دے گیا 

کیوں اجالوں کی نوازش ہو رہی ہے ہر طرف 
کیا کوئی بجھتے چراغوں کو جوانی دے گیا 

کیوں نہ اس آوارہ بادل کو دعائیں دیجئے 
جو سمندر کو خلش صحرا کو پانی دے گیا 

رات کا پچھلا پہر تھا۔ دنیا میٹھی نیند میں تھی، دو آدمی اپنی نیند قربان کرکے شہر کا گشت لگا رہے تھے۔ ایسے میں انہیں چوک میں کوئی کھڑا نظر آیا۔ وہ سرکاری لیمپ کے نیچے کھڑا تھا۔
یہ اس کے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا، وہ دس بارہ سال کا ایک لڑکا ہے۔ انہوں نے دیکھا، وہ اپنا سبق یاد کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا:
"کیا تم دن کے وقت مدرسے میں نہیں پڑھتے کہ رات کے وقت یہاں کھڑے سبق یاد کر رہے ہو؟"
اس کی بات سن کر لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگا:
"میرے والد مسلمانوں کے بادشاہ کے ہمراہ جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں، میرے والد ہمارے لیے کوئی سرمایہ نہیں چھوڑ گئے۔ اس لیے میری والدہ سارا دن ٹوکریاں بناتی ہیں، میں ان کو بازار میں بیچتا ہوں۔ اس لیے دن میں میرے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ میں روزانہ صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد محلے کے قاری صاحب سے سبق لیتا ہوں، رات کو یاد کرکے صبح انہیں سنا دیتا ہوں۔ میرا اور بادشاہ کا فیصلہ تو اللہ کی عدالت میں ہوگا۔۔۔ ۔ میں وہاں بادشاہ کا گریبان پکڑ کر عرض کروں گا، یا رب العزت! اس بادشاہ نے تیرے راستے میں شہید ہونے والے مجاہد کے گھرانے کی ذرا بھی خبر گیری نہیں کی۔ اس کے محل میں تو ہزار ہا چراغ جلتے تھے، لیکن مجھے گھر میں چراغ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری لیمپ کی روشنی میں پڑھنا پڑتا تھا۔"
ان دو آدمیوں سے ایک خود بادشاہ تھا۔ وہ بچے کی باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا:
"میں ہی تمہارا بادشاہ ہوں۔ اے لڑکے مجھے معاف کردے۔ اگر تو نے میری شکایت اللہ تعالیٰ کے دربار میں کردی تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔"
ساتھ ہی اس نے فرمان جاری کیا:
"اس بچے اور اس کی والدہ کو شاہی محل میں جگہ دی جائے، اسے شہزادوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتب بھیجا جائے۔"
دنیا اس بادشاہ کو سلطان محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔

خشک میوہ جات کے بے شمار طبی فوائد ہمیں معلوم ہیں اور اب یونانی سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں مردوں کے لیے ان کا ایک ایسا حیران کن فائدہ بتا دیا ہے کہ سن کر ہر مرد انہیں اپنی روزمرہ خوراک کا حصہ بنا لے گا۔ ویب سائٹ oliveoiltimes.com کے مطابق یونیورسٹی آف ایتھنز کے سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 18سے 35سال کی عمر کے 83مردوں پر تجربات کیے۔ انہوں نے ان مردوں کی جنسی صحت کے ٹیسٹ کے اور پھر ان کو دو گروپوں میں تقسیم کرکے ایک گروپ کو معمول کی خوراک جاری رکھنے کو کہا اور دوسرے گروپ کو معمول کی خوراک کے ساتھ روزانہ 2مٹھی خشک میوہ جات کھانے کی ہدایت کی۔

دوسرے گروپ کے لوگ معمول کی خوراک کے ساتھ 60گرام بادام، اخروٹ اور ہیزل نٹ کھاتے رہے۔ 14ہفتے بعد دونوں گروپوں کی جنسی صحت کے دوبارہ ٹیسٹ کیے گئے جن میں معلوم ہوا کہ خشک میوہ جات کھانے والے گروپ کے مردوں کی جنسی قوت دوسرے گروپ کے مردوں سے کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ سائنسدانوں نے نتائج میں بتایا ہے کہ خشک میوہ جات سے نظام دوران خون بہتر ہوتا ہے جو کہ مردوں کی جنسی صحت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ خشک میوہ جات کھانے سے ان مردوں کو دیگر کئی طبی فوائد بھی حاصل ہوئے اور ان کے دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی دوسروں کی نسبت کہیں کم ہو گئے۔

صحت ہے تو سب کچھ ہے ۔ضروری ہے کہ ہم اپنی صحت کیلئے متوازن غذا کا استعمال کریں ۔صحت مند رہنے کیلئے مناسب غذا کا ہو نا ضروری ہے ۔دفتری اوقات میں اکثر ہم لوگ باہر کے کھانوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جو وقتی طور پر تو ٹھیک لگتا ہے لیکن معیاری کھانا نہ ہو تو صحت کی بربادی کی اس سے بڑی وجہ کوئی اور نہیں ہو سکتی ۔غیر معیاری کھانوں کی وجہ سے اکثر ہمارا معدہ خراب ہو جا تا جس کی وجہ سے قبض کا سامنا اکثر ہمیں رہتا ہے ۔

قبض کے مسلسل رہنے سے معدہ اور انتڑیوں میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث بے شمار امراض جنم لیتے ہیں۔ اس لیے صحت مندر رہنے کیلئے قبض سے چھٹکارا پانا بے حد ضروری ہے۔ قبض کو ام لامراض بھی کہاجاتاہے۔ اس مرض میں مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ قبض کی وجہ دراصل غذامیں فائبرکی کمی ، جسمانی سرگرمیوں کو کم کرنا ، پانی کم پینا ، ادویات کے منفی اثرات یا مختلف قسم کے بازاری کھانے ہیں۔اپنی ڈائٹ کو بدلیں جتنا ہوسکے منرلز اواور وٹامن سے بھرپورغذاکا استعمال کریں۔ پھل اور تازہ سبزیوں کی اپنی خوراک مین لازمی شامل کریں۔ بازاری بندڈبوں والی غذا ﺅں سے پرہیز کرنے کی ہرمکمن کوشش کریں۔ بعض اوقات چائے کا حد سے زیادہ استعمال بھی قبض کا موجب بنتاہے۔ وقت پر کھانا کھائیں۔دائمی قبض سے مروڑ اور پیچش کی بیماری بھی شدت پکڑ جاتی ہے۔ آج کل ہر دسواں آدمی اس مرض میں مبتلا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو کئی بیماریاں اس کے باعث پیدا ہو سکتی ہیں۔ قبض کی صورت میں سانس سے بد بو آنا ، زبان پر سفیدہ ، پیٹ میں درد ، پیٹ کا پھولنا ، بد ہضمی ، سردراوربے چینی وغیرہ پیدا ہوتی ہے۔ دائمی قبض سے نجات کے لیے یہ نسخہ بہت کار آمدہے۔

نسخہ کے اجزاء:

بڑی ہڑ : آدھا چائے کاچمچ
چھوٹی ہڑ : آدھاچائے کاچمچ
آملہ : ایک گلاس
دودھ : ایک گلاس

نسخہ کی تیاری اور طریقہ استعمال:

ان تینوں اجزاءکا باریک سفوف بنالیں۔ گرم دودھ میں یہ سفوف اچھی طرح مکس کرلیں اور روزانہ دن میں دو بار پی لیں۔ یہ عمل مسلسل چودہ دن تک جاری رکھیں۔ اس کے استعمال سے دائمی قبض سے مکمل نجات مل جائے گی اور اس کے باعث پیٹ کی بیماریاں بھی ختم ہو جائیں گئی۔
خواتین کو اکثر حمل کے دوران بھی اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ اس کا بہترین حل ہے کہ اس بیماری کو ہونے نہ دیاجائے۔ دوئمی قبض خواتین کواس لیے زیادہ ہوتی ہے کہ جسم پر فالتوبڑی ہوئی چربی، دوران حمل کی کمی ، بے جاادویات کا استعمال کرتی ہیں۔ صبح کی سیر کو اپنا معمول بنا لیں۔

نوٹ: نسخہ استعمال کرنے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں ۔




کام کی کچھ ایسی باتیں جو آپ کی زندگی آسان بنا دیں گی ،نہا یت دلچسپ اور حیرت انگیز نسخے ،یہ کچھ ایسے گھریلو ٹوٹکے ہیں جن کو استعمال کر کے آپ اپنی زندگی کو آسان بنا سکتے ہیں ۔

قبض کا آسان گھریلو علاج

شدید قبض میںر ات کو ایک گلا س نیم گرم دودھ میں چند قطرے روغن بادام کے ملا کر پی لیں قبض ختم ہو جائے گی ۔

مسوڑھے مضبوط بنانے کیلئے

آج کل سردیوں کا موسم ہے اور مونگ پھلی ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہو تی ہے ،اگر مونگ پھلی کے دانوں کو نمک کیساتھ ملا کر اچھی طرح چبا چبا کر کھائیں تو مسوڑھے مضبوط ہونگے ،یہاں تک کے خون آنا بھی بند ہو جائیگا ۔

لہسن اور ادرک کی بو ختم کرنے کیلئے

اکثر گھروں میں مصالحہ جات کو پیسنے اور ان کا پیسٹ بنانے کیلئے گرائنڈر کا استعمال کیا جا تا ہے جس میں لہسن اور ادرک تو لازمی شامل ہو تا ہے ،مصالحہ جات کا پیسٹ بنانے کا کام تو ہو جا تا ہے لیکن گرینڈر کے جگ میں سے لہسن اور ادرک کی مہک جلدی نہیں جاتی ،اس مہک کو دور کرنے کیلئے استعمال شدہ پتی کو گرینڈر کے جگ میں ڈالیں اور تھوڑا سا پانی ڈال کر ہلائیں کچھ دیر ایسا کرنے کے بعد گرینڈر میں سے بدبو ختم ہو جائے گی ۔

خستہ پیا ز فرائی کرنے کیلئے

پیاز کو فرائی کرنے سے قبل اگر چند منٹ کیلئے دودھ میں بھگو لیا جائے تو پیاز بہت خستہ فرائی ہو گی.

بسکٹس کو خستہ رکھنے کیلئے

بسکٹس کو زیادہ عرصے تک خستہ رکھنا ہو تو ان کو پولیتھین کے لفافے میں بند کریں اور فرج میں رکھ دیں بسکٹس خستہ رہینگے.

اعصابی درد کا موثر اعلاج

اگر آپ کو اعصابی درد کی تکلیف ہے تو روغن اخروٹ درد والی جگہ لگائیں ، درد فوری ختم ہو جائے گا ۔


دنیا وی خواہشات ہیں جو دن بہ دن بڑھتی ہی رہتی ہیں ان خواہشات کو پورا کرنے کیلئے انسان شب و روز محنت میں لگا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کا آرام اس سے دور ہو تا چلا جا تاہے ،انسان کے کام کرنے اوقات بڑ ھ جا تے ہیں اور آرام کرنے کا وقت انتہائی کم رہ جاتا ہے ۔انسان کی ایسی مصروفیات کی وجہ سے نیند کی کمی ،خوراک کی کمی اور زیادہ سوچنے کا عمل بڑھ جا تاہے ،ایسی تمام صورتحال کی وجہ سے انسان دماغی کمزوری کی طرف تیز ی سے بڑھنے لگتا ہے ۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دماغی کمزوری کے ہونے کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں جن میں نیند کی کمی ،خوراک کی کمی اور زیادہ سوچنا شامل ہے۔اس کمزوری سے نجات حاصل کرنے کے لئے لوگ بہت سی ادویات کا استعمال کرتے ہیں مگر ان ادویات سے بھی زیادہ فائدہ نہیں ہوتا ہے تو اس کا آسان سا علاج آپ کے گھر میں ہی موجود ہے جس کے استعمال سے آپ چند ماہ میں دماغی کمزوری کو ختم کر سکتے ہیں۔

نسخہ کے اجزاء:
کلونجی کا تیل ، چینی  اور دودھ کی ملائی

نسخہ کی تیاری اور استعمال کا طریقہ:
پانچ تولہ ملائی میں حسب ضرورت چینی ڈالنی ہے اور اسے تھوڑی دیر پکانا ہے اس کے بعد اس میں 7 قطرے کلونجی کے تیل ملانے ہیں اس کے بعد روزانہ صبح نہار منہ اس کا استعمال کرنا ہے اور اس عمل کو کم سے کم 3 ماہ استعمال کرنا ہے ۔ دماغی کمزوری بھی دور ہوجائے گی اور صحت بھی اچھی ہوجائے گی۔

انسانی جسم کا صحیح کام کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس جسم کی ہر چیز صحیح کام کرتی ہو یعنی دل اور دماغ سے لے کرہر چھوٹی رگ کا صحیح سے کام کرنا ضروری ہے ورنہ وقتا فوقتا انسان تکلیف سے دوچار رہتا ہے۔اس لئے جسم کے ہر حصے کی اچھی پرورش ضروری ہے۔ اور آج ہم آپ کو جسم اور دماغ کو تروتازہ رکھنے کا ایک خاص نسخہ بتائیں گے جس سے آپکو بے حساب طاقت کا خزانہ ملے گا۔اس کے استعمال سے جسم بھرپور طاقت ملتی ہے ۔

نسخہ کے اجزاء:
پانی میں بھگوئے ہوئے 10 بادام
آدھا کلو دودھ
شہد،مصری یا چینی تینوں میں سے کوئی بھی لیں۔

نسخہ کی تیاری اور طریقہ استعمال:
دس چھلے ہوئے باداموں کو اچھے سے گھونٹ لیں اور جوش کھاتے ہوئے دودھ میں ڈال دیں اور 2-3 بار جوش آنے کے بعد آگ سے اتار لیں اور ٹھنڈا کر لیں.اور جب پینے کے قابل ٹھنڈا ہوجائے تو اس میں شہد ملالیں کیونکہ شہد میں شفاءہے اور صحت کیلئے بے حد مفید ہے۔

نوٹ: نسخہ استعمال کرنے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں

بہت سے لوگ ہیں جو انگلش گولیاں اور کپسول استعمال کرتے ہیں مردانہ طاقت اور ٹائمنگ کو زیادہ کرنے کے لئے مگر وہ سب چیزیں وقتی ہوتی ہیں آپ لوگوں کو ہمبستری کے وقت چند منٹ کا مزہ یا طاقت دیتی ہے اور جیسے ہی آپ لوگ ہمبستری سے فارغ ہوتے ہیں تو آپ کی مردانہ طاقت پھر ویسی ہی ہو جاتی ہے اس لئے میں آپ لوگوں کے لئے ایک بہت ہی آسان گھریلو نسخہ لے کر آیا ہوں۔
<p>یہ ایک بہت ہی آسان اور سادہ سا نسخہ ہے یہ آپ لوگوں کے اندر مردانہ طاقت کا سیلاب پیدا کر دے گا کیوں کہ یہ ایک دیسی اور قدرتی چیزوں سے تیار ہوگا . چلیں اب آپ لوگوں کو نسخے کی طرف لے کر چلتا ہوں جس کو آپ لوگوں نے اچھی طرح نوٹ کر لینا ہے تاکے بعد میں کوئی مسلہ پیش نہ آئے۔

نسخہ کے اجزا :
دودھ اور شہد

نسخہ کی تیاری کا طریقہ:
ایک گلاس دودھ لے کر اس میں 2 چمچ شہد کے ملا لینے ہیں اس کے بعد رات کو سونے سے ایک گھنٹہ پہلے آپ نے اس کو پی لینا ہے یہ آپ کی نفس کے اندر تمام کمزوریوں کو دور کر دے گا اور ٹائمنگ کو بحال کر دے گا جس کے بعد آپ کے اندر طاقت کا طوفان آ جائے گا .یہ عمل آپ لوگوں نے تقریباً ایک مہینے تک جاری رکھنا ہے ایک مہینے کے اندر اندر آپکی تمام کمزوریاں دور ہو جائیں گی اور طاقت بحال ہو جائے گی .

مرد حضرات اپنی قوت باہ بڑھانے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں،بعض اوقات یہ طریقے انتہائی کارگر ثابت ہوتے ہیں اور اکثر منفی ردعمل کے حامل ہوتے ہیں۔آج ہم آپ کو وہ آسان،بے ضرر اور انتہائی کارآمد طریقے بتائیں گے جوباآسانی دستیاب ہوتے ہیں اور ان کے منفی اثرات بھی نہیں۔

لہسن: لہسن کے بہت سے طبی فوائد ہیں، اس کی جڑ سے ان لوگوں کو فائدہ ہوسکتا ہے جنہیں مباشرت کی خواہش پوری کرنے میں کسی قسم کی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ایچ کے باکرو اپنی تحقیق سے ثابت کرتے ہیں کہ جنسی اعتدال کی کامیابی میں لہسن بہت ہی مفید قدرتی ٹانک ہے۔ اس کا طریقہ استعمال نہایت ہی آسان ہے۔ صرف 2 سے 3 توریاں لہسن کی ہر صبح نگل لیں اور اس کے حیران کن نتائج سے لطف اندوز ہوں۔

 پیاز: قدرت نے پیاز میں وہ خصوصیات پنہاں کیں ہیں کہ عقل  گم ہوجاتی ہے۔ جیسے اگر عضو بدن صحیح طرح سے کام نہ کررہا ہو تو پیاز اس کمزوری کو نہ صرف دور کرتا ہے بلکہ اسے قدرتی حالت میں واپس لانے میں بھی اہم کردار اداکرتا ہے۔ اس کا طریقہ استعمال یہ ہے کہ کھانے کے ساتھ پیاز کھائیں، پیاز کوسلاد کا لازمی حصہ بنالیں۔

 گاجریں: بہت سے دیگر طبعی فوائد کے علاوہ جنسی سٹیمنا بڑھانے کے لئے گاجروں کا استعمال بہت ہی مفید ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی حیران کن بات ہے کہ گاجریں اور انڈے شہوت کو ابھارنے اور ٹائمنگ کو بڑھانے میں بہت مفید ثابت ٹھہرے ہیں۔ اس کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ 150 گرام گاجریں کاٹ لیں۔ اس میں ہاف بوائل انڈہ شامل کریں اور پھر شہد میں ڈبو کر کھائیں۔ صرف ایک ماہ روزانہ یہ مرکب کھانے سے آپ کو حیران کن نتائج دے گا۔

 بھنڈیاں: سبزیاں ویسے تو بہت سے غذائی اجزاءسے بھرپور ہوتی ہیں اور انسانی صحت کے حوالے سے بہت ہی مفید ثابت ہوتی ہیں، وہ لوگ جو مردانہ قوت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں انہیں چاہیے کہ بھنڈیوں کا استعمال شروع کردیں۔ طریقہ استعمال یہ ہے کہ بھنڈیوں کی جڑ کا سفوف بنالیں اور اسے دودھ میں ملا کر پئیں۔ روزانہ ایک گلاس آپ کو ایک نئی طاقت سے روشناس کرائے گا۔

 مارچوب: یہ ایک سدا بہار بوٹی ہے جسے سبزی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ خدا نے اس میں مردانہ قوت کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔ اس کا بھی طریقہ استعمال ذیل ہے جو بھنڈیوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔

 ادرک: احتلام، جریان اور جنسی طور پر ہونے والی کمزوری کیلئے ادرک سے بڑھ کر کوئی دوسری نعمت نہیں ہوگی۔ آدھا گلاس ادرک کا جوس لیں اور اس میں ایک ہالف بوائل انڈہ مکس کریں۔ اس میں ایک چمچ شہد ملا کر محلول بنالیں اور روزانہ اس کا استعمال آپ کو مردانہ کمزوری سے نجات دلاتا ہے۔

 چھوہارے: چھوہارے یعنی خشک کھجوریں آئرن کا گڑھ ہوتے ہیں۔ یہ غیر معمولی طاقت کا منبع بھی ہوتے ہیں جو شہوت کی طاقت کو بڑھاتے ہیں۔ اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بہت بھی مقبول ہے، نیم گرم دودھ میں چند چوہارے ڈالیں، اس کے علاوہ اس میں بادام اور پستہ دال لیں۔ اس کے علاوہ چوہارے، بادام اور پستہ کو ملا کر پیس لیں اور روزانہ ایک سے تین چمچ کھائیں۔

 منقہ: کھٹا میٹھا منقہ بھی قوت باہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ منقے کی مناسب مقدار لے کر دودھ میں ابال کر اس کا محلول بنالیں اور ایک شیشی میں بند کرلیں۔ روزانہ 20 گرام کھانے سے کھوئی ہوئی قوت واپس آجائے گی۔



مردوں میں مخصوص کمزوری کے مسئلے کی وجہ دوران خون کی خرابی ہوتی ہے اور یہ مسئلہ مہنگےعلاج سے بھی رفع نہیں ہوتا تاہم اب ترک سائنسدانوں نے ہرگھر میں پائی جانے والی ایک عام سی گولی کے ذریعے اس کا انتہائی آسان علاج بتا دیا ہے

مردوں میں مخصوص کمزوری کے مسئلے کی بڑی وجہ دوران خون کی خرابی ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بسااوقات مہنگے علاج سے بھی رفع نہیں ہوتا تاہم اب ترک سائنسدانوں نے ہر گھر میں پائی جانے والی ایک عام سی گولی کے ذریعے اس کا انتہائی آسان علاج بتا دیا ہے۔

خبر کے مطابق یہ گولی ”اسپرین“ ہےجس کے متعلق استنبول کی میڈی پول یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر مردانہ کمزوری کے مسئلے سے دوچار مرد اسپرین کی روزانہ ایک گولی مسلسل6ہفتے تک کھائیں تو انہیں اس مسئلے سے نجات مل جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے اس تحقیق میں 184ایسے مردوں پر تجربات کیے جن کی عمراوسطاً48سال تھی اور وہ اس مرض کا شکار تھے۔

 انہیں دو گروپوں میں تقسیم کرکے سائنسدانوں نے ایک گروپ کو 6ہفتے تک روزانہ اسپرین کی ایک گولی کھلائی جبکہ دوسرے گروپ کو  نقلی  گولی دی جاتی رہی ۔

اس سے دوسرے گروپ کے لوگوں کو بھی یہ احساس رہتا ہے کہ وہ بھی گولی کھا رہے ہیں لیکن گولی کا کوئی منفی یا مثبت اثر نہیں ہوتا۔

تقریباً چھ ہفتے بعد ماہرین نے دوبارہ ان کے مرض کے تجزیات کیے تو حیران کن نتائج سامنے آئے۔

 نقلی گولی کھانے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا جبکہ جو لوگ روزانہ اسپرین کی گولی کھا رہے تھے ان کا 50سے 88.3فیصد تک مرض ختم ہو گیا تھا۔

 جنسی تقویت کی گولی ’ویاگرا‘ کھانے سے یہ شرح 48سے 81فیصد ہوتی ہے۔ چنانچہ اس تحقیق میں اسپرین کے نتائج ویاگرا سے بھی بہترسامنے آئے۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ذکی بائراکتر کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کے خون میں موجود پلیٹ لیٹس بہت بڑے ہوتے ہیں جو دوران خون میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

اسپرین کی گولی ان سمیت دوران خون میں رکاوٹ کی دیگر وجوہات کو دور کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں مردوں کا یہ جنسی مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔

مرد حضرات اپنی قوت باہ بڑھانے کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں،بعض اوقات یہ طریقے انتہائی کارگر ثابت ہوتے ہیں اور اکثر منفی ردعمل کے حامل ہوتے ہیں۔آج ہم آپ کو وہ آسان،بے ضرر اور انتہائی کارآمد طریقے بتائیں گے جوباآسانی دستیاب ہوتے ہیں اور ان کے منفی اثرات بھی نہیں۔ 

لہسن: لہسن کے بہت سے طبی فوائد ہیں، اس کی جڑ سے ان لوگوں کو فائدہ ہوسکتا ہے جنہیں مباشرت کی خواہش پوری کرنے میں کسی قسم کی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر ایچ کے باکرو اپنی تحقیق سے ثابت کرتے ہیں کہ جنسی اعتدال کی کامیابی میں لہسن بہت ہی مفید قدرتی ٹانک ہے۔ اس کا طریقہ استعمال نہایت ہی آسان ہے۔ صرف 2 سے 3 توریاں لہسن کی ہر صبح نگل لیں اور اس کے حیران کن نتائج سے لطف اندوز ہوں۔

پیاز: قدرت نے پیاز میں وہ خصوصیات پنہاں کیں ہیں کہ عقل گم ہوجاتی ہے۔ جیسے اگر عضو بدن صحیح طرح سے کام نہ کررہا ہو تو پیاز اس کمزوری کو نہ صرف دور کرتا ہے بلکہ اسے قدرتی حالت میں واپس لانے میں بھی اہم کردار اداکرتا ہے۔ اس کا طریقہ استعمال یہ ہے کہ کھانے کے ساتھ پیاز کھائیں، پیاز کوسلاد کا لازمی حصہ بنالیں۔

گاجریں: بہت سے دیگر طبعی فوائد کے علاوہ جنسی سٹیمنا بڑھانے کے لئے گاجروں کا استعمال بہت ہی مفید ہوتا ہے۔ یہ بہت ہی حیران کن بات ہے کہ گاجریں اور انڈے شہوت کو ابھارنے اور ٹائمنگ کو بڑھانے میں بہت مفید ثابت ٹھہرے ہیں۔ اس کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ 150 گرام گاجریں کاٹ لیں۔ اس میں ہاف بوائل انڈہ شامل کریں اور پھر شہد میں ڈبو کر کھائیں۔ صرف ایک ماہ روزانہ یہ مرکب کھانے سے آپ کو حیران کن نتائج دے گا۔

بھنڈیاں: سبزیاں ویسے تو بہت سے غذائی اجزائ سے بھرپور ہوتی ہیں اور انسانی صحت کے حوالے سے بہت ہی مفید ثابت ہوتی ہیں، وہ لوگ جو مردانہ قوت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں انہیں چاہیے کہ بھنڈیوں کا استعمال شروع کردیں۔ طریقہ استعمال یہ ہے کہ بھنڈیوں کی جڑ کا سفوف بنالیں اور اسے دودھ میں ملا کر پئیں۔ روزانہ ایک گلاس آپ کو ایک نئی طاقت سے روشناس کرائے گا۔ مارچوب: یہ ایک سدا بہار بوٹی ہے جسے سبزی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ خدا نے اس میں مردانہ قوت کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔ اس کا بھی طریقہ استعمال ذیل ہے جو بھنڈیوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔

ادرک: احتلام، جریان اور جنسی طور پر ہونے والی کمزوری کیلئے ادرک سے بڑھ کر کوئی دوسری نعمت نہیں ہوگی۔ آدھا گلاس ادرک کا جوس لیں اور اس میں ایک ہالف بوائل انڈہ مکس کریں۔ اس میں ایک چمچ شہد ملا کر محلول بنالیں اور روزانہ اس کا استعمال آپ کو مردانہ کمزوری سے نجات دلاتا ہے۔

چھوہارے: چھوہارے یعنی خشک کھجوریں آئرن کا گڑھ ہوتے ہیں۔ یہ غیر معمولی طاقت کا منبع بھی ہوتے ہیں جو شہوت کی طاقت کو بڑھاتے ہیں۔ اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بہت بھی مقبول ہے، نیم گرم دودھ میں چند چوہارے ڈالیں، اس کے علاوہ اس میں بادام اور پستہ دال لیں۔ اس کے علاوہ چوہارے، بادام اور پستہ کو ملا کر پیس لیں اور روزانہ ایک سے تین چمچ کھائیں۔ منقہ: کھٹا میٹھا منقہ بھی قوت باہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ منقے کی مناسب مقدار لے کر دودھ میں ابال کر اس کا محلول بنالیں اور ایک شیشی میں بند کرلیں۔ روزانہ 20 گرام کھانے سے کھوئی ہوئی قوت واپس آجائے گی۔


مردانہ طاقت کو بڑھانا ہر تندرست اور نوجوان وبوڑھے کی خواہش ہوتی ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، ہمارے ہاں اس کمزوری پر بات کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ بھی عام کمزوریوں کی طرح ایک جسمانی کمزوری ہے مگر سوال یہ پیدا ہرتا ہے کہ مردانہ طاقت کو بڑھایا کیسے جائے،۔پرانے وقتوں اور موجودہ دور میں بھی جس کے پاس کوئی ایسا نسخہ ہوتا ہے۔تو وہ اس کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھتا ہے۔اور کسی کو بتانا گناہ سمجھتا ہے۔اور اسنسخے کو اپنے ساتھ قبر میں ہی لے جاتا ہے۔ایسے علم کا کیا فائدہ جو اللہ پاک کی مخلوق کا بھلا نہ کر سکے ذیل میں جو نسخہ بتایا جارہا ہے وہ ہے تو خوراکی نسخہ مگراس کا تعلق قدیم یونان سے ہے اور اس سے مردانہ طاقت کو چار گنا تک بڑھایا جاسکتا ہے۔اس نسخہ سے بدن کی طاقت اور پھرتی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔تھکاوٹ کا پتہ بھی نہیں چلتا ہر مزاج اور ہر عمر کے مرد اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔ مگر مرد بالغ ہوں ۔نابالغ اس کو استعمال نہ کریں۔

نسخہ تیار کرنے کی ترکیب

نرچھوہارا،  پنساری سے ملے گا 3عدد لے کر باریک کتر کر1پاو دودھ میں بھگو دیں۔تقریبا 12 گھنٹے لازمی بھگوئیں 12 گھنٹوں کے بعد اس کو گرائینڈر میں ڈال کر اچھی طرح یکجان کر لیں اور چولہے پرپکائیں اس میں دارجینی ثابت آدھا انچ ملا لیںجب دودھ اچھی طرح پک جائے تو چولہے سے اتار کر نارمل ٹھنڈا کر کے شہد ملا کر پی لیں۔ انشاللہ مردانہ طاقت 4گنا تک بڑھ جائے گی-

چند احتیاطیں

شوگر اور بلڈپریشروالے مریض ایک دفعہ پی کر چیک کریں کہ بلڈپریشر یا شوگر تو نہیں بڑھی، اسکے علاوہ چھوہارے اس دودھ میں ملائیں جو ایک دفعہ ابل کرٹھنڈا ہوگیا ہو کوشش کریں کہ اس کو ٹھنڈے موسم میں استعمال  کریں۔ مسلسل استعمال نہ کریں وقفہ دے کر استعمال کریں۔  اسکے علاوہ اس میں میوہ جات بھی شامل کر سکتے ہیں۔اگر بکری کا دودھ استعمال کریں گے تو ٹائمنگ میں بھی بہت اضافہ ہوگا۔ یاد رہے کہ چھوہارا صرف نرچھوہارا ہی لینا ہے۔اور کوئی نہیں۔

خاوند کو اپنی مردانہ طاقت کے لئے یہ پانچ گھریلو نسخہ لازمی کرنے چاہے خاوند کو اپنی مردانہ طاقت کے لئے یہ پانچ گھریلو نسخہ لازمی کرنے چاہے مردانہ طاقت بڑھانے کے پانچ بہترین نسخے 

نمبر ایک :دو دیسی انڈے کھانے کے بعد آدھا کلو دودھ پینا عادت بنا لیں کبھی مردانہ کمزوری نہیں ہوگی 
نمبر دو :گرم دودھ میں دو چمچ شہد ملا کر پینے سے جنسی کمزوری ختم ہوجاتی ہے اور تولیدی مادہ ھاڑہ ہوتا ہے
نمبر تین :نیم گرم دودھ میں زاعفران ملا کر پینے سے مردانہ طاقت بہترہوجاتی ہے 
نمبر چار :دس گرام سیسی گھی کے ساتھ ایک کیلا کھانے سے اور بعد میں دودھ پینے سے بھی مردانہ قوت میں اضافہ ہوتا ہے
نمبر پانچ :چھوارے دودھ میں ملاکر پینے سے جنسی کمزوری دور ہوتی ہے اور ٹائمنگ بہتر ہوتی جاتی ہے 


گیدڑ سنگھی

عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں. کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں. کچھ لوگ اسے سر ایک بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں. کچھ جوگی اس کو ایک ایسے گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے. جس کو تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں.

اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جس کے پاس ہو اس کی قسمت بدل جائے گی. اس کو ہر طرح سے مالی مدد حاصل ہوگی. زیورات یا نقدی کے سیف میں گیدڑ سنگھی رکھی جائے تو وہ مزید بڑھیں گے. دولت اور کاروبار میں ترقی ہوگی، گمشدہ مال مل جایا کرے گا. غیب سے ہر طرح کی مدد اور خوشحالی حاصل ہوگی، دولت آنے کے ہر ذریعے میں کامیابی ہوگی. لاٹری، بانڈ، جوا، سٹہ، کاروبار میں کامیابی ہوگی.

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ گیدڑ سنگھی کا تعلق ہندوستان سے ہے اور اسے ہندو تانترں نے دریافت یا ایجاد کیا لیکن ہمیں ہندو مذہب یا تاریخ کی کسی کتاب میں گیدڑ سنگھی کا ذکر نہیں ملتا. چونکہ اسے سیندور میں رکھا جاتا ہے اس لیے اس کا تعلق ہندؤوں سے جوڑ دیا گیا.

درحقیقت گیدڑ سنگھی کا ذکر ہمیں قدیم مصر میں ملتا ہے. قدیم مصر میں گیدڑ کو ایک انتہائی متبرک جانور سمجھا جاتا تھا. ان کے ایک دیوتا کا نام انوبس Anubis تھا جس کا سر گیدڑ جیسا اور باقی جسم انسان کا تھا. آپ نے اکثر قدیم مصر کے اہرام اور دوسرے قدیم عمارات کی دیواروں پر منقش شدہ تحاریر اور شبیہات میں اس دیوتا کی تصویر دیکھی ہوگی. اسی طرح قدیم مصریوں میں بلی کو بھی انتہائی مقدس جانور خیال کیا جاتا تھا.

مصری لوگ گیدڑ سنگھی نکال کر حنوط کر لیتے تھے اور پھر ایک خاص مرتبان میں رکھ کر اپنے خزانے میں رکھتے تھے. اسی طرح یہ رسم چلتی ہوئی ہندوستان اور تمام دنیا تک بھی پہنچی. زمانہ قدیم سے لوگ گیدڑ سنگھیاں حنوط کر لیتے تھے. راجہ مہاراجہ اور بادشاہ اسے اپنے خزانوں کے درمیان رکھتے تھے.

کہا جاتا ہے کہ جب گیدڑ سو سال کا ہو جاتا ہے تو اس کے سر پر سینگ اگ آتا ہے یا یہ کہ یہ سینگ صرف گیدڑوں کے سردار گیدڑ کے سر میں پایا جاتا ہے.

لوگ اس چیز کو بہت منتیں کر کے جوگیوں اور ملنگوں سے خریدتے ہیں اور خریدتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ زندہ حالت میں ہو اور پھر بڑے پیار اور عزت سےاسے سیندور اور خوشبووں والی ایک چھوٹی سی ڈبی میں رکھتے ہیں. سیندور وہی سرخ رنگ کا پوڈر نما سفوف ہے جیسے ہندو پٙتی اپنی پتنی کی مانگ میں لگاتا ہے. سیندور ایک کیمیکل ہوتا ہے جو اسے کیڑے لگنے اور گلنے سڑنے سے محفوظ رکھتا ہے.

لوگ اس گیدڑ سنگھی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پاک صاف ہو کر اس کے نزدیک جاتے اور اس کو ہاتھ میں پکڑتے ہیں کیونکہ جوگی صاحب نے انہیں بتایا ہوتا ہے کہ اگر ناپاک حالت میں اس کے قریب جاؤ گے تو یہ مر جائے گی یا اس وجہ سے آپ کا بہت بڑا نقصان ہو جاۓ گا.

اصل میں گیدڑ سنگھی واقعی گیدڑ کے سر (کھوپڑی) سے حاصل ہوتی ہے. یہ بلکل جلد کے نیچے موجود ہوتی ہے اور اسے اس کے سر سے کاٹ کر علیحدہ کر لیا جاتا ہے. اسی لئے اس چیز کے گرد بال بھی موجود ہوتے ہیں. گیدڑ سنگھی کینسر زدہ (tumer) سیلز ہیں جو کہ گیدڑوں کے سر میں ایک بڑے دانے کی طرح ابھر آتا ہے جس میں تھوڑی سی سختی بھی آجاتی ہے.

گیدڑ کے سر سے الگ ہونے کے باوجود اس کے بڑھنے کی 2 وجوہات ہو سکتی ہیں:

  1. پہلی وجہ یہ کہ کینسر والے سیلز اس سنگھی میں موجود ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کو کھا کر بڑھتے رہتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ گیدڑ سنگھی بڑھ رہی ہے.
  2. اس کے بڑھنے کی دوسری وجہ آکسیجن کی غیر موجودگی میں بیکٹیریا کی گروتھ کا جاری رہنا یا ان کی تعداد کا بڑھتے رہنا بھی ہو سکتا ہے. 
  3. یہ سب کینسر زدہ سیلز کو سندور میں حنوط کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے.


نوٹ: اگر کسی کے پاس اس کے سائز کے بڑھنے کی کوئی اور وجہ ہے تو ضرور بتائیے گا.

کچھ بھیک مانگنے والے جوگی اور سپیرے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں. سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر گیدڑ سنگھی فائدہ مند ہوتی تو وہ خود خوشحال ہوتے اور دربدر بھیک نہ مانگ رہے ہوتے.

اگر ایسے شواہد ہوتے کہ کسی ایک غذا کے کھانے سے قوتِ باہ، شہوت یا جنسی لذت بڑھتی ہے تو شاید یہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتی۔

ایک متوازن خوراک، فعال طرزِ زندگی اور صحت مند ذہن، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو زندگی میں جنسی لذت کو زیادہ دوام بخش سکتی ہیں۔ لیکن کیا کوئی غذا ایسی ہوتی ہے جو ایک قدرتی طور پر شہوت انگیز ہوتی ہے؟

ایسے اجزائے خوراک جو جسم کے اندر خوشی پیدا کرنے والی کیمیائی خمیرے کو متحرک کرتے ہیں، وہ ایسی خوراک ہوتی ہے جو صحت مند جنسی زندگی میں اضافہ کرتی ہے یا دوسرے الفاظ میں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قوتِ باہ میں اضافہ کرتی ہیں۔


آئیں ان نظریات کی تاریخ اور سائنس کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ آیا ان غذاؤں میں سے کوئی بھی آپ کی جنسی زندگی میں کوئی بہتری لاتی ہے۔

کیا اوئسٹرز یا کستورا مچھلی کھانے کا فائدہ ہوتا ہے؟

کہتے ہیں کہ کیسانووا (اٹلی کا ایک مہم جُو جو اپنے معاشقوں کی وجہ سے مشہور ہے) اپنے ناشتے میں پچاس اوئسٹرز کھاتا تھا، لیکن افسوس ہے کہ اس غذا اور قوتِ باہ کے اضافے کا کوئی سائنسی تعلق نظر نہیں آتا تو پھر یہ بات اتنی مشہور کیوں ہوئی؟

کہانی کچھ ایسی بیان کی جاتی ہیں کہ جب محبت کی یونانی دیوی ‘ایفروڈائٹ’ پیدا ہوئی تو وہ سمندر سے ابھری اور اس طرح سمندر کی خوراک کو قوتِ باہ بڑھانے والی خوراک سمجھا گیا۔ البتہ اس میں ایک خبر بھی ہے اور وہ یہ کہ ’اوئسٹرز میں جِست (زنک) ہوتا ہے جو جسم میں فوطیرون (ٹیسٹیرون) کی پیداوار کے لیے ایک بنیادی عنصر ہوتا ہے۔

تحقیق کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ جِست بظاہر مردوں میں بانچھ پن کا علاج کرتی ہے اور مادّہِ منویہ کو طاقتور بناتی ہے۔

جست کا بہترین ذریعہ ایک تو صدف کے اندر کی مچھلی ہے۔ اس کے علاوہ یہ چوپاؤں کے گوشت، کدّو اور حشیش کے بیجوں اور تلوں میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ یہ اخروٹ، بادام اور کاجو کے علاوہ چنوں اور لوبیے جیسی پھلیوں اور دودھ اور پنیر وغیرہ میں بھی ملتا ہے۔

کیا ڈارک چاکلیٹ آپ کو بہتر محبوب بناتی ہے؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گہرے رنگ کی چاکلیٹ کھانے سے وہی احساسات پیدا ہوتے ہیں جو آغازِ محبت میں کوئی شخص محسوس کرتا ہے، کیونکہ اس چاکلیٹ میں ‘فینائیل تھیلامائین’ نامی کیمیکل ہوتا ہے جو بے انتہا خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے اور یہ کیمیکل محبت کرنے والوں کے محبت کے اوائل کے دنوں میں ان کے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔

فینائیل تھیلامائین سے دماغ کے خوشی محسوس کرنے والے حصے میں ڈوپامائین پیدا ہوتی ہے۔ اس چاکلیٹ میں فینائیل تھیلامائین کی بہت ہی قلیل سی مقدار ہوتی ہے، اسی لیے اس بات پر شک کیا جاتا ہے کہ جب یہ کھائی جاتی ہے تو اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ہے۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ناریل سے حاصل ہونے والے کوکو سے خون کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔

لہٰذا اب یہ سمجھنا چاہیے کہ اس چاکلیٹ اور قوتِ باہ کا آپس میں تعلق کب بنا؟ 16ویں صدی کے ہسپانوی بحری سیاح، ہرنان کورٹیز جس کے متعلق کہا جاتا ہے وہ پہلا یورپی تھا جس نے چاکلیٹ کو دریافت کیا تھا، اس نے ہسپانیہ کی بادشاہ کارلوس اول کو لکھا تھا کہ اس نے جنوبی امریکہ کی قدیم تہذیب ‘مایا’ کے لوگوں کو اس چاکلیٹ کو پیتے ہوئے دیکھا ہے جس سے ان کی ‘قوت مزاحمت میں اضافہ ہوتا ہے اور تھکان میں کمی پیدا ہوتی ہے۔’

شاید ہسپانویوں نے چاکلیٹ سے وہ طبی فائدے منسوب کر دیے ہیں جو خود ‘مایا’ تہذیب کے لوگوں نے بھی نہیں جوڑے تھے، اور پھر ایسے شواہد بھی نہیں ہیں کہ اس چاکلیٹ کا قوتِ باہ میں اضافے سے کوئی تعلق بنتا ہے۔


لحمیاتی خوراک یا ٹرِپٹوفین کے دیگر ذرائع میں انڈے، مرغیاں، ساگ، چاروں مغز، بادام وغیرہ اور سویا سے بنائی گئی مصنوعات بھی شامل ہیں۔

قوتِ باہ شہوت جنس غدا خوراک
کیا مرچ مصالحوں والا کھانا قوتِ باہ میں اضافہ کرتا ہے؟
تیز مرچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں ‘کیپسیسین’ جیسے کیمیکلز ہوتے ہیں جسے کھانے کے بعد جسم میں موجو افیونی اجزا کا اخراج ہوتا ہے جو ایک مخصوص قسم کی لذت پیدا کرتے ہیں۔

یہ جسم میں توڑ پھوڑ کے عمل (میٹابولِزم) کی رفتار کو تیز کرتے ہیں اور جسم کے درجہ حرارت اور دل دھڑکنے کی رفتار کو بڑھاتے ہیں۔

یہی کیفیت اس وقت بھی جسم میں پیدا ہوتی ہے جب ہم جنسی عمل کرتے ہیں۔

شراب سے قوتِ باہ میں کمی ہوتی ہے یا اضافہ؟

شراب سے شاید جنسی خواہش میں اضافہ ہوتا ہو کیونکہ اس سے سماجی رکاوٹوں کا احساس کم ہو جاتا ہے، لیکن جیسا کے انگریزی ادب میں شیکسپئیر کے ڈرامے کے ایک کردار ‘میکبیتھ’ نے نشے کی حالت میں کہا کہ ‘اس سے خواہش کا پیدا ہونا تو ثابت تو ہوتا ہے لیکن اس سے کارکردگی کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔’

بہت زیداہ شراب نوشی سے مرد اور عورت دونوں میں ایک دوسرے کو محسوس کرنے کی حساسیت کم ہوجاتی ہے اور طویل عرصے تک شراب نوشی سے جنسی خوہش بھی کمزور ہونے لگتی ہے جس کے نتیجے میں بانچھ پن بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

اس کے علاوہ ہر وقت مہ کدے جیسی بو آنے سے جنسی خواہش میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔

قوتِ باہ شہوت جنس غدا خوراک
قوتِ ایستادگی کے کمزور ہونے کے خطرے کو کم کیسے کیا جاسکتا ہے؟
تحقیقات کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پودوں والی خوراک میں ‘فلاوونائڈ’ ہوتی ہے جس سے ایرکٹائل ڈسفنکشن یا ایستادگی میں کمی ہونے کے خطرے کو روکے جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایک مخصوص فلاوونائڈ جو ‘اینتھوسیانِن’ کہلاتا ہے بلیوبیریز، مالٹوں، سنگتروں وغیرہ میں پایا جاتا ہے اور اس میں ایستادگی میں کمی کے خطرے کو روکنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

روزمرّہ کی خوراک میں اگر پھلوں کی مقدار زیادہ ہو تو ایستادگی میں کمی کے خطرے کو روکنے کے چودہ فیصد امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگر فلاوونائڈ سے بھر پور خوراک کے استعمال اور جسمانی ورزش کو مربوط طریقے کے ساتھ کیا جائے تو اس خطرے کو کم کرنے کے امکانات اکیس فیصد ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا پھلوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔

بعض محقیقین کا کہنا ہے کہ یورپ میں بحیرۂِ روم کے علاقوں کی خوراک کھانے سے بھی جنسی فعالیت کو بڑھا کر ایستادگی میں کمی کے خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس خوراک میں اجناس، پھل، سبزیاں، پھلیاں، اخروٹ اور زیتون کے تیل کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

قوتِ باہ شہوت جنس غدا خوراک
‘اینتھوسیانِن’ حاصل کرنے کے لیے شاہ دانہ، بیر، سیاہ توت، رس بھری، کالی کشمش، کرینبری، کروندا، بینگن اور بند گوبھی کو بھی خوراک میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

‘ایفروڈیزک’ کا ایک جائزہ
قوتِ باہ بڑھانے کے لیے جو خوراک استعمال کی جاتی ہیں انھیں انگریز میں ‘ایفروڈیزِک فوڈ’ کہا جاتا ہے۔ یہ نام یونانی دیوی ایفروڈائیٹ کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔

اس قوت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: اول شہوت، دوئم جسمانی طاقت اور سوئم جنسی لذت۔ ان میں کسی کے بارے میں سائنسی معیار کے مطابق کو رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ مختلف افراد میں ان غذاؤں کے استعمال کے مختلف قسم کے نتائج نظر آئے ہیں۔

درحقیقت اگر کسی ایک قسم کی خوراک کے ‘ایفروڈیزک’ خوراک کے طور پر موثر ہونے کے شواہد نظر آئے تو وہ زیادہ پکّے ہوئے اور کچھ گل سے گئے پھلوں کی خوشبو ہے۔ مگر افسوس کہ ایسے پھلوں کا اثر بھی صرف پھلوں پر بیٹھنے والی نر مکھیوں میں دیکھنے کو ملا۔

قوتِ باہ شہوت جنس غدا خوراک
جنسی صحت کے بارے میں علوم کے ماہر ڈاکٹر کرِچمن کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں لوگ اس لیے ‘ایفروڈیزک فوڈ’ کھاتے ہیں کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے کھانے سے قوتِ باہ میں اضافہ ہوتا ہے۔

وہ پوچھتے ہیں کہ اگر ایک خوراک آپ کے لیے موثر ہو تو کیا اس کے کوئی معنی ہیں کہ کیوں؟

کئی اعلیٰ معیار کی غذائیں مبینہ طور پر ‘ایفروڈیزک فوڈ’ کہلاتی ہیں، لیکن بہتر یہ ہو گا کہ پودوں سے حاصل کی گئی ایسی غذاؤں سے پرہیز کریں اگر ان پر واضح معلومات درج نہ ہوں اور وہ کسی قسم کے چمتکار دکھانے کا دعویٰ کرے۔

غیر واضح حالت
اگر آپ جنسی خوہش میں کمی محسوس کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ میں کوئی طبی نوعیت کا مسئلہ ہو، اس لیے کسی بھی مسئلے کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

امریکی ماہرین نفیسیات کے تجربوں کا نچوڑ

’’ ہم میاں بیوی ایک دوسرے کو بے پناہ چاہتے ہیں ، پھر بھی ہماری جنسی زندگی کچھ ٹھیک نہیں جارہی ۔‘‘
یہ شکایت ایک پڑھی لکھی خاتون نے کی ہے ۔ وہ ہائی سکول میں ٹیچر ہے اور خاصی ذہین اور سمجھدار ہے ۔
اچھا تو کیا تم نے اپنے شوہر سے اس مسئلہ پر گفتگو کی ہے ؟ میں نے زرینہ سے اس کی شکایت سن کر کہا ۔ اس کا شوہر لاہور کے ایک ہسپتال میں معروف ڈاکٹر ہے ۔ دونوں کی شادی کو بارہ برس بیت چکے ہیں۔ میں جب کبھی ان کے گھر جاتا ہوں تو ایک خوش باش اور معقول حد تک کامیاب گھرانے کا احساس ہوتا ہے ۔ زرینہ اپنی شکایت نوک زبان پر نہ لاتی تو مجھے ان کی ازدواجی زندگی میں اس خامی کا کبھی احساس نہیں ہوسکتا تھا۔
میں اس سے ہربات کرسکتی ہوں۔لیکن بابا، میں سیکس پر بات نہیں کرسکتی ۔ ہمت ہی نہیں پڑتی ۔ زرینہ کہنے لگی ۔ آخر میں اسے کیسے بتاؤں کہ میں کیا چاہتی ہوں ۔
آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف زرینہ کا مسئلہ نہیں ۔ مختلف تعلیمی اور سماجی حیثیت رکھنے والی عورتوں کو اکثر اوقات اسی قسم کے احساسات ہوا کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ صرف ہمارے ملک کا معاملہ نہیں ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ اور جنسی طورپرآزاد روئیے رکھنے والے ملک میں بھی صورت حال اسی قسم کی ہے ۔
اکثر شادہ شدہ افراد اپنے ساتھیوں کی جنسی ترجیحات سے بے خبر ہوتے ہیں ۔یہ الفاظ پامیلا شروک کے ہیں ۔ شروک صاحبہ امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے جنسی تعلیم کے پروگرام میں ذہنی معالجہ ہیں۔ ایک اور ممتاز امریکی ماہر کیتھلسن میکائے نے چند سال پہلے بہت سی شادی شدہ خواتین کا ایک غیر رسمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی کئی ایسی جنسی ضرورتیں ہیں جن سے ان کے شوہر بالکل بے خبر رہتے ہیں ۔ عورتیں چاہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طور ان کے شوہروں کو ان ضروریات کی اطلاع ہوجائے ۔ مگر مسئلہ وہی ہے ’’ سمجھ میں نہیں آتا بات کہاں سے شروع کی جائے‘‘ ۔
سروے مکمل کرنے کے بعد کیتھلسن میکائے نے امریکا کے چھ بہترین جنسی معالجین سے اس موضوع پر گفتگو کی ۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ بھی ان عورتوں کی رائے سے متفق تھے کہ ان کے شوہروں کو ان جنسی ضرورتوں کو علم ہونا چاہئے ۔ آپ ان کو ایسے جنسی راز قرار دے سکتے ہیں جن سے عورتیں اپنے شوہروں کو باخبر دیکھنا چاہتی ہیں۔

عورت کے لیے جنسی فعل زندگی کا جزو ہوتا ہے

مردوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اکثر عورتیں اس وقت تک جنسی طور پر مطمئن نہیں ہوتیں جب تک ان کی مجموعی ازدواجی زندگی خوش گوار نہ ہو۔ گویا یہ نہیں ہوتا کہ ان کے دن اچھے نہ ہوں مگر راتیں اچھی ہوجائیں ۔
سات برسوں سے حمید کے ساتھ بیاہی ہوئی انتیس سالہ بانو کا کہنا ہے کہ ’’ حمید کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی ۔ اس پردفتری کام کا بہت بوجھ ہے ۔ وہ بجھا بجھا سا گھر آتا ہے ۔میرے ساتھ کوئی بات نہیں کرتا ،کسی چاہت کا اظہار نہیں کرتا ۔ آدھی رات تک ٹیلی ویژن دیکھتا رہتا ہے ۔پھر بیڈروم میں آتے ہی مجھے دبوچ لیتا ہے۔میں فورا ہی گرم جوشی نہ دکھاؤں تو اس کا موڈ بگڑ جاتا ہے‘‘ ۔
بیڈ پر بیوی کے روئیے کا تعین اس امر پر ہوتا ہے کہ گھر میں شوہر کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہے اور گھر کے مجموعی ماحول کی کیفیت کیا ہے ۔ اگر دونوں کی شام لڑنے جھگڑنے یا ایک دوسرے سے بے نیازی میں گزری ہو تو پھر بیڈ پر عورت سردمہر اور لاتعلق ہوتی ہے ۔
اکثر شوہر عورت کی اس فطرت سے لاعلم ہیں ۔ لہذا وہ بہت حیران ہوتے ہیں ۔ چنانچہ تینتالیس سالہ جمیل پوچھتا ہے ’’ عورت جنسی لمحات کو بذات خود اہم کیوں نہیں سمجھتی ؟ وہ ان کی قدر کیوں نہیں کرتی ؟ ان لمحوں سے لطف اٹھانے کے بجائے وہ پرانے لڑائی جھگڑے لے کر کیوں بیٹھ جاتی ہے ‘‘؟
جمیل کے سوال کا جواب سٹین ہال ہونیورسٹی کی ماہر سماجیات لائن ایٹواٹر نے دیاہے ۔ وہ لکھتی ہیں ’’ عورتیں زندگی کے تمام معاملات کو ایک دوسرے سے جڑا ہوا سمجھتی ہیں جبکہ مرد مختلف معاملات کو الگ تھلگ رکھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ زندگی کی الجھنوں کو وقتی طورپر نظر انداز کرکے جنس کے مزے لیے جاسکتے ہیں‘‘ ۔
جنسی امور کی شہرہ آفاق ماہر ورجینا جانسن اپنے علم اور مہارت کی بنا پر دعوی کرتی ہیں ’’ جنسیت اور چاہت کو خانوں میں تقسیم نہیں کیاجاسکتا ۔بھرپور سیکس قربت اور چاہت کا تسلسل ہوتی ہے‘‘ ۔
یہ حقیقت بہت اہم ہے ۔ چنانچہ ماہرین اچھی ازدواجی زندگی کے لیے یہ مشورہ دیا کرتے ہیں کہ میاں بیوی جب سیکس پر آمادہ نہ ہوں تو بھی ان کو ایک دوسرے کے لیے چاہت کا اظہار کرتے رہنا چاہئے ۔ شوہر شام کو گھر لوٹتے ہوئے ، کسی وجہ کے بغیر ہی ، بیوی کے لیے گلدستہ یا کوئی اور تحفہ لے آئے،بچوں کو سیروتفریح کے لیے لے جائے تو اس قسم کی باتوں سے ان کی جنسی مسرتیں بڑھ جاتی ہیں۔ ان کی ازدواجی زندگی بہتر ہوجاتی ہے ۔
ناگوار امور کے بارے میں نرمی سے مگر صاف صاف بات کرنے سے بھی مدد مل سکتی ہے ۔ وکی نے ایسا ہی کیا تھا ۔ اس نے شوہر کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ بیڈ پر جانے سے پہلے وہ اس کی توجہ اور گفتگو کی آرزو کرتی ہے ۔
وکی نے ہمیں بتایا ’’ میری اس بات کا اچھا اثر ہوا ۔ اب ہم دونوں میں ایک نئی مفاہمت پیدا ہوچکی ہے ۔ بیڈ ٹائم سے پہلے ہم ایک گھنٹہ مل کر بیٹھتے ہیں ۔باتیں کرتے ہیں یا موسیقی سنتے ہیں ۔ اب ہم دونوں جنسی طورپر زیادہ مطمئن ہیں ۔

گفتگو اکثر عورتوں کے لیے محرک ہوتی ہے 

رات کے کھانے کے دوران یا کسی اور فرصت کے وقت اچھی گفتگو سیکس کے لیے موثر محرک ثابت ہوتی ہے ۔ایک دوسرے سے کہے جانے والے چاہت بھرے الفاظ رفاقت کی خواہش کو بڑھاتے ہیں ۔
لائن ایٹواٹر کا ذکر پہلے کر چکے ہیں ۔ انہوں نے ایک اہم بات دریافت کی ۔
ایٹواٹر صاحبہ نے کئی عورتوں کے انٹرویو لئے جنہوں نے اپنے شوہروں کے علاوہ غیر مردوں سے جنسی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ ان عورتوں کے مفصل مطالعے سے ایٹواٹر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غیر مردوں سے جنسی تعلق رکھنے والی پچھتر فیصد عورتوں کو محض جنسی تسکین کے لیے غیروں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہ آزادانہ مکالمے کی طلب گار ہوتی ہیں ۔ وہ بھرپور رفاقت چاہتی ہیں ۔
لائن ایٹواٹر نے لکھا ہے ’’ میں نے جن عورتوں کا مطالعہ کیا ،ان میں سے ایک کو بخوبی علم تھا کہ اس کا آشنا نامرد ہے ۔ لیکن وہ لچھے دار باتیں کرنے کا فن جانتا تھا ۔ یوں اس کی صحبت میں اس عورت کو وہ کچھ مل جاتا تھا جو اس کا شوہر اس کو نہ دے سکتا تھا م یا دینے پرآمادہ نہ تھا‘‘۔
کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کی نفسیات دان لونی بارباخ نے اس بات کو آگے بڑھایا ہے ۔ وہ کہتی ہیں ’’ بہت سی عورتوں کے لیے سیکس سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ان کو چاہے جانے کا احساس دلایا جائے ۔ ان کے ساتھ باتیں کی جائیں ۔ خاص طور پر وہ عورتیں جو سارا دن گھریلو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں ،وہ گفتگو کے لیے ترستی ہیں ۔ ان سے باتیں کی جائیں ، ان کی بات سنی جائے اور ان سے میٹھے بول کہے جائیں تو وہ خوشی سے پھولی نہیں سما تیں‘‘۔
میرے ایک بیالیس سالہ دوست امجد کو اس کا ذاتی تجربہ ہے ۔ دس سال پہلے اس کی شادی شبنم سے ہوئی تھی ۔ وہ کہتا ہے کہ شروع شروع میں محبت کا اظہار میرے بس کا روگ نہ تھا۔میں اس معاملے میں بہت شرمیلا اور نکما تھا ۔ لیکن ایک رات میں گہرا سانس لیا اور دل کی بات شبنم سے کہہ ڈالی ۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے اس سے گہری محبت ہے ۔ میرے لیے وہ دنیا کی حسین ترین عورت ہے ۔ میرے الفاظ سے وہ بہت متاثر ہوئی ۔اب میں گاہے بگاہے اپنے جذبوں کو الفاظ کا روپ دیتا رہتا ہوں ۔ اس طرح ہماری زندگی ہی بدل گئی ہے ۔ہم بہت خوش اور ایک دوسرے سے مطمئن ہیں‘‘۔

عورتوں کو بھی جنسی کارکردگی کی تشویش لاحق ہوتی ہے 

عورتوں کے جنسی رویوں کے بہت سے سائنسی مطالعے کیے گئے ہیں ۔ان کے نتیجے میں سامنے آنے والے حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ صرف ساٹھ فیصد عورتیں ایسی ہیں کہ جتنی بار وہ جنسی فعل کرتی ہیں وہ انزال تک پہنچتی ہیں ۔اکثر عورتوں کو اپنے ساتھی یا خود اپنی طرف سے انزال کے لیے دباؤ ہوتا ہے ۔
اس موضوع کو اٹھاتے ہوئے ایک ماہر نفسیات نے لکھا ہے ’’ لوگ بھول جاتے ہیں کہ بسا اوقات محبوب کی رفاقت بذات خود لطف انگیز ہوتی ہے ۔اکثر مردوں کے نزدیک اچھا جنسی ساتھی وہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو ڈرامائی جنسی تسکین سے ہمکنار کرتا ہے ۔بلاشبہ اس قسم کے لمحات زبردست ہوتے ہیں لیکن ہر بار ضروری نہیں ہوتے ‘‘۔
انزال کو مقصد بنا کر سیکس کرنے کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے ہم گردوپیش کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے بجائے منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے اندھا دھند بھاگتے چلے جائیں ۔ سیکس کا مقصد باہمی رفاقت سے مسرت حاصل کرنا ہے ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ چنانچہ جو عورتیں یا مرد انزال کو ٹارگٹ بنا کر سیکس کرتے ہیں ، ان پرمنزل تک پہنچنے کی تشویش رہتی ہے ۔وہ سارا مزہ کرکرا کردیتی ہے۔
بہت سی عورتیں اپنی جسمانی کشش کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتی ہیں ۔ دو بچوں کی ماں انتالیس سالہ فریحہ کہتی ہیں ’’ شادی کے دس برسوں میں میرا وزن چھبیس پونڈ بڑھ گیا ہے ۔ میں پریشان رہتی ہوں کہ شاہد کہیں بددل نہ ہوجائیں‘‘ ۔

شوہر بیوی کو دلکشی اور چاہت کا احساس کس طرح دلا سکتا ہے ؟

اس کا سیدھا سا طریقہ یہ ہے کہ بناوٹ سے کام نہ لیا جائے ۔بیوی موٹی ہے تو اس کو پھول کی پنکھڑی سے تشبیہ دینے کی ضرورت نہیں ۔
ہاں اس میں جو بات اچھی لگتی ہے ،اس کی تعریف ضرور کریں ۔ بیوی کے ہاتھ خوبصورت لگتے ہیں تو یہ بات اس کو جتلاتے رہا کریں ۔آنکھیں پسند ہیں ،تو شرم کی کون سی بات ہے ۔ ان کی تعریف کردیں ۔
اس سلسلے میں ایک اور بات یہ ہے کہ بیڈ پر بہت سنجیدہ رویہ کوئی قابل تعریف معاملہ نہیں ۔ یہ ہنسنے کھیلنے کے لمحات ہیں ۔ان کو بوجھ نہ بنایا کریں ۔

جنسی فعل کے بعد توجہ عورت کو تسکین دیتی ہے 

اکیس سال سے شادی شدہ چوالیس سالہ زبیدہ کو اب بھی گلہ ہے کہ جنسی فعل کے بعد وہ تنہائی محسوس کرتی ہے ’’ میرا میاں شب بخیر بھی کہے بغیر منہ موڑ کر خراٹے لینے لگتا ہے‘‘ ۔
اس قسم کی شکایتیں بہت سی عورتیں کرتی ہیں ۔ ان کو شوہروں کا یہ رویہ پسند نہیں ہوتا ۔ وہ چاہتی ہیں کہ سیکس کے بعد منہ پھیرنے کی بجائے شوہر ان پر توجہ مرکوز رکھے ۔ یہ ان کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔وہ چاہتی ہیں کہ شوہروں کو اس ضرورت کا علم ہو جائے ۔
جن عورتوں کے شوہر سیکس کے بعد بھی متوجہ رہتے ہیں ، وہ خاص قسم کی مسرت محسوس کرتی ہیں ۔ وہ توجہ طلب لمحات کو جنسی فعل کے بعد بھی جاری رکھنا چاہتی ہیں ۔لہذا بعد میں ان سے دو میٹھی باتیں ضرور کریں ۔ اور ہاں ان لمحوں میں کوئی غلط بات کہنے سے گریز کریں ۔ بارباخ کی تلقین یہ ہے ’’ شوہر کو اس وقت کوئی نکتہ چینی نہیں کرنی چاہئے‘‘ ۔

ایک تجربہ کار خاتون کا عورتوں کو مشورہ یہ ہے کہ ان کو بھی جنسی فعل کے بعد کے لمحات میں احتیاط سے گفتگو کرنی چاہئے ۔ اس خاتون نے اپنی ایک سہیلی کی حماقت کی مثال دیتے ہوئے کہا ’’ ایک بار بھرپور سیکس کے بعد اس نے اپنے شوہر سے کہا آج آخری تاریخ تھی تم نے سوئی گیس کا بل جمع کرا دیا تھا ۔‘‘ یہ برسوں پرانی بات ہے مگر ہم آج بھی اس پرہنسا کرتے ہیں ۔ اس قسم کی حماقتوں سے بہتر یہ ہے کہ میاں بیوی چند لمحوں کے لیے باقی دنیا کو فراموش کردیں ۔

عورتوں کو غیر جنسی چھیڑ چھاڑ بھی چاہئے 

بتیس سالہ شیلا  اپنے شوہر کی ایک  ہی شکایت کرتی ہے کہ وہ صرف اس وقت اس کو چھوتا ہے جب وہ خود جنسی فعل پر آمادہ ہوتا ہے ’’ کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ وہ محض چھیڑ چھاڑ میں مجھے چوم لے یا چھو ہی لے ۔ پتہ نہیں اس کے لیے یہ کام مشکل کیوں ہے ‘‘؟
شیلا کے شوہر کا کہنا ہے کہ چھونے سے جنسی جذبے بھڑک اٹھتے ہیں ۔لہذا وہ غیر ضروری لمحات میں اس سے گریز ہی کرتا ہے ۔
آئیے اس بارے میں ایٹواٹر صاحبہ سے پوچھتے ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ یہ رومانس غیر معمولی نہیں ۔ عورتیں رومانس چاہتی ہیں ۔یہ ان کی ذہنی ضرورت ہے۔ اس کو پورا کرنا چاہئے ‘‘۔
’’ میاں بیوی کا رشتہ زندگی کا اہم ترین تعلق ہے ۔ان کو باہمی رفاقت کے لمحوں کو باقی چیزوں پر ترجیح حاصل ہونی چاہئے ۔ قربت کا مطلب لازمی طورپر سیکس نہیں ہے ۔ اس کا مطلب ایک دوسرے کے جذبوں میں شراکت ہے ۔ دونوں کو اکٹھا گزارنے کے لیے وقت نکالنا چاہئے ۔ بھرپور زندگی کے لیے یہ معاملہ بہت ضروری ہے‘‘

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget